عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

ذکرامیرمینائی – تیسرا اور آخری حصہ

حصہ اول حصہ دوم

امیر مینائی کی دوسری نہایت ہی اہم ادبی خدمت امیراللغات کی ترتیب و تالیف ہے اس بارے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیے.”جب سے ہوش سنبھالا ، آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھا کہ اچھے اچھے اہل زبان اور زباندان سر زمین سخن کے فرمانروا ہیں.انہیں کی صحبتوں میں اردو زبان کی چھان بین کا شوق مجھے بھی ہوا.اسی زمانے میں آرزو ہوئیاور بڑھ کر بے چین کرنے لگی کہ اردو زبان کے بکھرے ہوئے موتیوں کی ایک خوشنما لڑی بناؤں.اتنے میں لکھنؤ   کی سلطنت مٹ گئی وطن کی تباہی اور گھر بار لٹنے سے چندے حواس ہی نہ جمع ہو سکے.الفاظ کیسے؟لیکن آرزو کی آگ دل میں سلگتی رہی یہاں تک کے فردوس مکاں نواب یوسف الی خاں وائی رام پور نے مجھے بلا کر اطمینان کا سایہ دیا.اتنی فرصت تو نہ پا سکا کہ اپنے ارادے کو پورا کر سکوں تا ہم کچھ کچھ شغل چلتا گیا.١٨٨٤ء میں سر الفرڈ لائل صاحب بہادر، لیفٹنٹ گورنر مغربی و شمالی اور چیف کمشنر اودھ نے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش کی.نواب خلد آشیاں نے مجھے حکم دیا.یہاں تو تمنا ہی تھی…..”

افسوس کہ یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ نواب خلد آشیاں مرض الموت میں مبتلا ہو کر رحلت فرما گئے اور الفرڈ لائل بھی انہی دنوں ہندوستان کو خیر باد کہہ گئے اس پر تاسف کرتے ہوئے امیر مینائی فرماتے ہیں:

“اردو کی قسمت میں ہی یہ بداہے کہ سنورنے نہ پاۓ.میں اسے کیا کروں اور کوئی کیا کرے”

اس کے باوجود امیر مینائی نے مختلف شہروں کے دورے کیے.ہر جگہ لوگوں نے ہمت افزائی کی اور لغت مرتب کرنے کی”تمنا کوشہ دی”انہوں نے رام پور میں امیراللغات کا دفتر قائم کیا اور محنت ویکسوئی سے تالیف لغت میں منہمک ہو گۓ.

امیر مینائی ایک نہایت ہی بلند پایہ شاعر تھے.داغ نے جن شوخیوں اوراکثر اوقات غیر شائستہ تراکیب کو رواج دیا ان سے امیر مینائی نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی.داغ امیر کی اس شائستگی کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی اس باب میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیا.نیاز فتح پوری نے ایک خط میں تقریبًا اسی نکتے کو چھیڑَا  ہے فرماتے ہیں.امیروداغ کے موازنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں شمال و جنوب کی نسبت ہے.لیکن صنم خانہ عشق لکھ کر امیر نےخواہ مخواہ ایک عذاب مول لیا ہے.اسی لیے کہہ ان کے شایان شان نہ تھا اور دوسروں کے لیے بھی کہ ان کو داغ کی سطح پر گفتگو کرنا پڑتی ہے.”

آگے چل کر اسی خط میں نیاز لکھتے ہیں”امیر شاعر تھے اس میں کلام نہیں لیکن آپ کو معلوم نہیں شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں.وہبی واکتسابی.میں نے یہ تقسیم اور طرح کی ہے مطلق شاعر اور شاعر با لقوت.یعنی ایک وہ جو سواۓشعر کہنے کے اور کسی کام کا نہیں، یعنی شعر نہ کہے گا تو کرےگا کیا.اور دوسرا وہ جو دوسری تمام انسانی اہلیتوں کے ساتھ شعر گوئی کی بھی اہلیت رکھتا ہے.سو ظاہر ہے کے جہاں تک محض شعر کا تعلق ہے امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں.داغ صرف شاعر تھے اور کچھ نہیں.امیر سب کچھ تھے مگر وہبی شاعر نہیں.داغ کا سرمایہ ہستی اسکی شاعری تھی اور امیر کے لیے یہ امر باعث فخر و ناز نہ تھا.داغ نے تمام عمراسی ماحول میں بسر کردی جو گوشت پوست کے متعلق ہونے والی شاعری کے لیے ضروری ہے اور امیر کو نماز پنجگانہ اور تہجد گزاری سے کہاں فرصت تھی جو اس طرف توجہ کرتے.

 “ہر چند مراۃ الغیب(امیر کا دیوان اول)کی شاعری بھی صرف اسیر کی سی شاعری ہے جس میں جذبات وغیرہ سے بہت کم سروکار ہے لیکن خیر ایک مخصوص رنگ اس زمانے کا ہے جو اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے لیکن”صنم خانہ عشق”لکھ کر انہوں نے کمال ہی کر دیا.غضب خدا کا امیر ایسا شخص اور عامیانہ جذبات نگاری میں اس سطح تک اتر آئے کہ،

رخسار نازک ہوں تو آج ایک مانوں گا نہ میں

دو بوسے لوں گا جان من اک اسطرف اک اسطرف

“امیر ایسے سنجیدہ و متقی شخص کی طرف سے ہم یہ سب گوارہ نہیں کر سکتے.البتہ ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہ آئ کہ وہ ہی امیر جو مرات الغیب میں یکسر بے آب و رنگ نظر آتے ہیں اور صنم خانہ عشق میں شرمناک حد تک عریاں ……کیونکر لکھنؤ پہنچ کر دفعتاً دہلی کی فضاؤں میں پہنچ گئے.لکھتے ہیں.

         ” کچھ آج نہیں رنگ یہ افسردہ دلی کا

            مدت سے یہی حال ہے یاور مرے جی کا

              کھاتے ہو قسم نہیں میں عشق

             صورت تو امیر اپنی دیکھو

              اک کنارے پڑاہوا ہے امیر

             کچھ تمہارا غریب لیتا ہے

         کوئی امیر ترا درد دل سنے کیونکر

              کہ ایک بات کہے اور دو گھڑی روۓ”

حیران ہوں کہ جس میں ایسے اشعار کہنے کی اہلیت ہو وو اپنے نام سے “مراۃ الغیب” اور “صنم خانہ عشق کی نسبت گوارہ کرے.”

                           (سالنامہ نگار پاکستان)مکتوبات نیاز نمبر دسمبر ١٩٨٥ء

امیرمینائی کے بارے میں نیاز کے استعجاب کی بنا پر کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں.کچھ رنگ زمانہ ، کچھ شوخی احباب اور کچھ محض تفنن طبع،ان سب کا اثر ان پر ہوا ہوگا اور چونکہ بقول نیاز امیر مینائی محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے اس لیے بطور تفریح اوقات انہوں نے معاصرین کے رنگ میں کچھ کہا ہو.اس بارے میں سرراہے گفتگو کے نتیجے میں خلیق ابراہیم خلیق نے جو خود بھی دبستان لکھنؤ کے بہت ہی موقر مؤد رہے ہیں ایک ذاتی خط میں تحریر فرمایا.

“داغ اور امیر جس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں اور اس سے پہلے کے معاشروں میں جنسی خواہشات و واردات کا برملا کھلم کھلا اظہارعمومی طور پر معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا.علماءومشائخ بھی فطری میلانات کو رد نہیں کرتے تھے اور حسرت موہانی کی زبان میں “زہد کی عصیاں نظری “عام تھی خواجہ میر درد جیسا صوفی صافی شاعر بھی اس سے مبرا نہیں تھا.ان کا شمار بھی حسرت موہانی کے نقطۂ نظر کے مطابق گنہگاران صالح میں ہو گا.وہ ذرا سنبھل کر چلتے تھے جبکہ دوسرے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آجاتے تو ابتدال کی حدیں پار کر جاتے تھے.مومن جیسا متشرع بھی اپنی مثنویوں میں کھل کھیلا ہے..رہی ابتدال کی بات تو تقریباً سبھی اس سے آلودہ تھے.کسی کے ہاں مبتذل اشعار کی خاصی تعداد ہے کسی کے ہاں کم،کسی کے ہاں بہت ہی کم  یا نہ ہونے کے برابر ہے.ہمارے منافقانہ معاشرے میں حسرت موہانی،ان کے ہمنوا ترقی پسندوں اور دوسرے وسیع النظر اور کشادہ دل لوگوں کے علاوہ بیشتر علماء و مشائخ اور نقادانہ ادب میں شوخی طبع یا شئے لطیف کا فقدان اور ہوس کا وفور ہے…”

بعض محققین اور تزکرہ نگاروں نے امیر و داغ کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے یا دونوں کے شاگرد اور طرف دار انیسیوں اور دبیریوں کی طرح ہر وقت لاٹھی پونگے پر آمادہ رہتے تھے.اس باب میں نیاز کا یہ جملہ کہ”امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں ہے”خاصا قابل غور اور لحاظ ہے.امیر احمد علوی نے طرہ امیر میں اکثر جگہوں پر امیر اور داغ کے طرز ادا پر تبصرہ سا کیا ہے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے.نقوش کے ادبی معرکے میں کہیں امیر و داغ  کی معاصرانہ چشمکوں کا ذکر نہیں ہے ہاں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ایک جگہ دونوں کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہا ہے انہوں نے ایسی محافل کا ذکر بھی کیا ہے جہاں داغ کے تلامذہ امیر کے فن یا ان کے قدردانوں کی ٹوپی اچھالنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اس بارے میں خاصی چن بین کے باوجود دوسری کسی جگہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے خود امیر مینائی انتہائی شریف النفس  تھے اس بارے میں ان کے ایک خط کا حوالہ کافی ہوگا.امیر مینائی اور داغ میں بہت بے تکلفی تھی اس لیے داغ کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:

“مدت کے بعد نوازش نامہ آیا.ممنون یاد آوری فرمایا.بندہ نواز مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی خط کا جواب قلم انداز کیا ہو.یہ میرے مقدر کی نہ رسائی ہے کہ کوئی خط نہ پہنچا ہو.”

داغ نے نظام دکن سے سفارش کی تھی کے امیر مینائی کو سلطان الاساتذہ کا خطاب مرحمت فرمایا جاۓ.یہ ذکر جب امیر کے نام ایک خط میں آیا تو حضرت امیر مینائی نے لکھا-….اول تو میں خطاب لینے کے قابل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں اور پھر درخواست دے کر خطاب مانگنا تو بلکل پسند نہیں……میاں اب وقت آگیا ہے کے مرحوم کے خطاب بارگاہ شہنشاہ حقیقی سے عطا ہو.اور کوئی حوصلہ نہیں…امیر فقیر.”

یہ خط ٣١ مارچ ١٨٩٠ء کو مرزا داغ کو دکن بھیجا گیا.ان دنوں امیر مینائی رام پور میں تھے اس کے کئی برس بعد دکن جانا ہوا جہاں وہ اپنی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں سرکاری گفتگو کے لیے گئے تھے.بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے نظام سے خطاب عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی (عام طریقہ یہی تھا کہ امراء درخواست کرتے اور نظام منظوری دیتے تھے)اور ایک طرح نظام کے طریقہ کار کی توہین کی تھی اس لیے لغت کے سلسلےمیں بھی کوئی مالی امداد کا سبیتا نہ ہو سکا.دربار حیدرآبادی کو مستقل بدنامی سے بچانے کے لیے کہا گیا کہ نظام اپنی علالت کی وجہ سے امیر مینائی سے نہ مل سکے.

تھوڑے ہی دنوں بعد یعنی  آج سے ٹھیک سو برس پہلے ١٣ اکتوبر ١٩٠٠ء کو حضرت امیر مینائی رحلت فرما گئے اور وہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیے گئے.

حضرت امیر مینائی کی غزلیات مجموعہ نعت اور محاسن شعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ابو محمد سحرنے پی ایچ  ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ بھی کلام امیر کی خوبیوں پر لکھا ہے لیکن اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ امیر مینائی کی نثری تصنیفات اور ان کے نقد شعر کی روش پر تفصیل سے کام کیا جائے.اس کے لیے ضرورت ذہنی سکون اور مطالعے کی ہے کیونکہ ان کی نثری تصانیفکی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے ان پر سیر حاصل تحقیقی کام کسی ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے.یہ کام تو کسی یونیورسٹی یا ادبی ادارے کی سرپرستی میں آسانی سے ہو سکتا ہے.یہ بھی ممکن ہے کے خانوادہ مینائی کا کوئی امیر زادہ کمر ہمت کس لے.اگر نئی صدی میں بھی یہ کام نہ ہو سکا تو خود بقول امیر..

 پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

Share

5 Comments to ذکرامیرمینائی – تیسرا اور آخری حصہ

  1. February 7, 2012 at 11:19 am | Permalink

    خاطر جمع رکھیے ۔ جبب تک اردو کے دیوانے موجود ہیں امیر مینائی کا نام زندہ رہے گا اور کوئی نہ کوئی ان پر پی ایچ ڈی کا کام بھی شاید کر لے ۔ ویسے یہ تجویز شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی کو ابن ضیا کے توسط سے بھجوائی جا سکتی ہے ۔

  2. February 7, 2012 at 11:03 pm | Permalink

    میری زندگی کا ایک داغ جسے اور بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی قبر میں لے جاؤنگا کہ امیر اللغات مکمل نہ ہو سکی۔ اگر یہ مکمل ہو جاتی تو اردو کی عظیم ترین لغت ہوتی، اور فرہنگِ آصفیہ اسکے سامنے پانی بھرتی۔ یہ دعویٰ بے دلیل کے نہیں ہے، امیر اللغات کی پہلی دو جلدیں جنہوں نے دیکھی ہیں اور اسکی تائید کریں گے، ایک ایک لفظ کی سند میں دس دس اشعار لکھے ہیں، اور کسی پہلو کو نہیں چھوڑا، گو کہ خود بھی استاد تھے لیکن شرافت دیکھیے کے اپنے اشعار کو اس میں بطور سند درج نہیں کیا۔ کاش یہ مکمل ہو جاتی، ہائے ہائے۔

  3. February 11, 2012 at 12:11 am | Permalink

    شکریہ محترم۔ امیر اللغات کی دونوں جلدیں ایک ہی حصے میں سنگِ میل لاہور نے شائع کر رکھی ہیں۔

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>