عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا

میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا

کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

یہ میری عقیدت بے بسر ،یہ میری ریاضت بے ہنر
مجھے میرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

 

Share

سقوط ڈھاکہ

میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھپتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے موحبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں

 

حبیب جالب

Share

مشاہدات – سلاست بر اردو معلی و اردو محلہ

خدا اسداللہ غالب کی مغفرت کرئے، کیا خوب کہا کہ برس ہا برس بعد بھی نثر پر بہار ٹھری۔

’’تم کو وہ محمد شاہی روشیں  پسند ہیں ۔ یہاں  خیریت ہے وہاں  کی عافیت مطلوب ہے… ہائے کیا اچھا شیوہ ہے جب تک یوں  نہ لکھو، وہ خط ہی نہیں  ہے۔ چاہِ بے آب ہے ابرِ بے باراں  ہے، نخل بے میوہ ہے خانہ بے چراغ ہے‘‘

اسی ضمن میں کل ایک جملہ راقم کے مطالعے میں آیا کہ

امراہم و اعظم و اجل و اعلی میں اشتغال بارہا امر سہل سے ذہول کا باعث ہوتا ہے

یعنی کہ  اہم کام میں انہماک سےدوسرے ضمنی کام پر توجہ نہیں رہتی۔ اس پر تو وہ مثل دریاآبادی کی صادق آتی ہے

شروع میں اسلوب بیان ذرا ثقیل تھا اور تذکرہ میں تو ثقیل سے گزر کراثقل ہو گیا۔

 اب ہم جیسے ناکارہ لوگ اکثر اس مخمصے میں گرفتار رہتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کی دقیق نثر اور جدید تقریر کی ابے اوے کے درمیان یہ استعاری پل صراط  بھلا کیونکر عبور ہو۔

راشد بھائی کی محبت کہ انہوں نے ہمارے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں ایک نہایت عمدہ کتاب تحفتا عنایت کی، تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو۔

thinking-fast-and-slow

اس کتاب کا تعارف کبھی اور سہی لیکن اس میں ڈاکٹر اوپن ہائمر کے ایک مقالے کا ذکر آیا، اس کا عنوان تھا

Consequences of Erudite Vernacular Utilized Irrespective of Necessity: Problems with Using Long Words Needlessly

اب یہ عنوان خود ہی دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے، بقیہ مضمون بھی نہائت عمدہ و سہل المطالعہ ہے۔

erudite-vernacular

 

 

حوالہ جات

ڈاکٹر رئیسہ پروین – غالبؔ کے خطوط کی اہمیت، ایک تعارف

اسلوبیاتی تجزئیے مرزا خلیل احمد بیگ مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے

Share

برادرم جعفر کی کتاب حال دل کا تعارف

ادب معاشرے کی امنگوں و احساسات کا عکاس ہوتا ہے، ڈائجسٹی ادب کو ادب عالیہ کے سنگھاسن پر براجماں پروہتوں نے کبھئ درخور اعتنا نا جانا لیکن اس میں کوئ کلام نہیں کہ اسی عام فہم ادب اپنے لاکھوں قارئین کو اردو زبان، بین القوامی ترجموں، افسانوں، جرم سزا اور زندگی سے قریب تر کہانیوں سے روشناس کرایا۔ ابن صفی کو یہ غم کھا گیا کہ انکے تخلیق کردہ اعلی پاے کے سری ادب کو معاصرین نے آرتھر کینن ڈائل اور آگاتھا کرسٹی کا ہم پلہ تو کیا جاننا تھا،ابن خصی کی تصانیف کا مقرب بھی نا گردانا، یہ سرقہ جات پر انکے اپنے الفاظ ہیں، میری اتنی جرات کہاں۔ جس طرح ‘جو دل پر گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے’ کا جذبہ منٹو و عصمت کا حرف و اہنگ ٹھرا تھا، استاد جعفر کی “حال دل” بلاگیات میں بھی وہی نداعام نظر آتی ہے۔ اگر آپ بلاگ کی صنف میں طنز و مزاح کا صحیح استعمال دیکھنا  چاہتے ہوں تو جعفر حسین کی تصنیفات سے استفاذہ کئے بغیر کوئ چارہ نہیں۔ جعفر کے استعارے میں جو تنوع ، حقیقت پسندی اور عام محاورے کی کاٹ ہے، اسکی مثال اردو بلاگستان میں خصوصا اور عصری ادب میں عموما شازونادر ہی دکھائ دیتی ہے۔ جعفر کا زخیرہ الفاظ اردو زبان کی طرح لامحدود ہے،اس میں آپکو پنجابی اسٹیج ڈرامے سے لے کر رومی و جامی و شیکسیئر تک سب ہی  دکھائ دینگے۔ خالده- کوئی نئیں تیرے نال دا کا ‘مقطع’ ایگزیبٹ اے کے طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

غلط العوام خیال یہی ہے کہ اگر مصنف یا اسکی زبان عام فہم ہو تو وہ تحریر یقینا ‘عامیانہ’ ہوگی؛مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ یہ مثال جعفر کی تحریروں پر بلکل صادق آتی ہے کہ وہ عام انداز سے لکھتا ہے، گنجلک فقروں سے یا بے محابہ ترکیبوں سے اپنی تحاریر کو آلودہ نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس کے مزاح کی کاٹ، الفاظ کی گرفت اور ندرت خیال میں اس عام فہم انداز بیاں سے چنداں کوئ فرق نہیں پڑتا۔ جعفر جس طرح لکھتا ہے وہ ہم سب کے لئے باعث رشک و حسد ہے کیونکہ ہم سب اسی طرح لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں کوئ اسے سوقیانہ ادب نہ کہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم الفاظ کے کھوکھلے قصر تعمیر کرتے ہیں اور اپنی سوچوں کو ان محلات کے زندانوں میں زندہ دفن کر دیتے ہیں۔ جعفر اپنے تخیل پر پہرے نہیں بٹھاتا، بلا جھجک جو سوچتا ہے وہ لکھتا ہے اور بہت خوب لکھتا ہے، اس کی سنسر شپ صرف سیلف سینسر شپ ہے یا شائد وہ بھی نہیں۔ چاہے وہ پسران بوم ہو یا ‘پریشاں ہیں پنڈ کی جھلیاں’ جیسے خاکے، انتقام ہو یا زہریہ ٹاون جیسی سنجیدہ تحاریر، یا پھر گنجے دت کی طرح ماضی کے دریچوں کی سیر کرائ جارہی ہو، استاد جعفر ‘بزبان خود شیعہ نہیں’ حسین، کا جداگانہ انداز تحریر قاری کو ہمیشہ ہل من مزید کی صدا بلند کرنے پر مجبور کئے رکھتا ہے۔

بس اس بات پرتعارف تمام کرتا ہوں کہ اگر پطرس بلاگ لکھتے تو جعفر جیسا لکھتے۔

کتاب پڑھنے کے لئے اس ربط پر کلک کریں ۔

Share

بے حسی کا خراج

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

الگارتھم بمقابلہ لاگرتھم

آج  شام کرسٹوفر اسٹائن کی تصنیف “آٹومیٹ دس” پڑھتے ہوئے صفحہ ۱۰۲ پرلفظ  الگارتھم کی تاریخ پر مبنی ایک پیراگراف نظر آیا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو الگوردم اور لاگرتھم کے الفاظ میں اشتباہ ہوتا ہے ، یہ دونوں بلکل مختلف اصطلاحات ہیں اور دونوں  الخوارزمی سے منسلک نہیں۔  الگارتھم کسی مسئلے کوحل کرنے کے لیۓ ، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل کو کہا جاتا ہے جبکہ لاگرتھم شارع کا منعکس عمل ہے جس  کی مدد سے بڑی قدروں کو چھوٹی قدروں میں تبدیل کر کر بڑے اعداد کے حساب کتاب کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

automate_this

صفحہ نمبر ۱۰۲ پر آٹومیٹ دس کے مصنف الگارتھم کے بارے میں شابرت کے حوالے سے لکھتے ہیں

“The word algorithm comes from Abu Abdullah Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi, a Persian mathematician from the ninth century who produced the first known book of algebra, Al-Kitab al-Mukhtasar fi Hisab al-Jabr wa l-Muqabala (The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing). Algebra’s name comes straight from the al-Jabr in the book’s title. As scholars disseminated Al-Khwarizmi’s work in Latin during the Middle Ages, the translation of his name—“algorism”—came to describe any method of systematic or automatic calculation”

لفظ الگارتھم، انیسیوں صدی میں فارس کے ایک ریاضی دان  ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی سے منسوب ہے جو  الجبرا کے موضوع پر پہلی معلوم کتاب کے مصنف ہیں۔ ۔اس کتاب کا نام كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة  تھا۔ ریاضی کی صنف الجبرا اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے۔ جب علما نے الخوارزمی کے کام کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کیا تو الخوارزمی کے نام کا لاطینی تلفط، الگورزم، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل میں حساب کتاب کا متبادل قرار پایا۔

حوالہ جات

الخوارزم

آٹومیٹ دس از کرسٹوفر اسٹائنر

Share

سقوط ڈھاکہ

اب کس کا جشن مناتے ہو؟ اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو؟ اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں‌ کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا

اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی

اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہ تھی

اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بےقیمت تھا آنگن میں کھلایا یا بن میں رہا

اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا

ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں‌ کیں۔
ان مظلوموں کا جن سے خنجر کی زباں میں باتیں‌ کیں۔

اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسی کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غمخواروں میں

ان نوحہ گروں کا جنہیں ہم نے خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سرِ بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں

یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بےبس لاچاروں‌ کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے

اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے یس قصے میں

آنکھوں‌ میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیئے
اس جشن میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرے کشکول لئے

احمد فراز

Share

محمد علی ردولوی پر تحقیقی مقالہ

چوہدری محمد علی ردولوی (۱۸۸۲ تا ۱۹۵۹) کا نام ہم نے پہل بار ضیا محی الدین کی محفل میں سنا۔ ان کے مضامین مثلا  بیوی کیسی ہونی چاہیے، میر باقر یا اپنئ بیٹی ہما خانم کے نام خط  نہایت عمدہ نثر پارے ہیں۔ اپنی صریح کم علمی کے باعث سوچا کہ احباب سے پتا کروں کہ یہ حضرت کون تھے کہ اسی اثنا میں محترمہ ثریا شمیل کے مندرجہ ذیل تحقیقی مقالے پر نظر پڑی، اس میں محمد علی ردولوی صاحب  کے حیات و فن پر سیر حاصل گفتگو ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا۔

Muhammad Ali Rudaulvi Dissertation
چوہدری-محمد-علی-ردولوی-حیات اور فن۔

Share

مرزا غالب اور تھینکس گیونگ کی ٹرکی

ڈاکٹر ہو کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر انکی ٹائم مشین استعمال کرتے ہوئے ہم نے مرزا نوشہ کو یوم تشکر یعنی تھینکس گیونگ پر ایک عدد ٹرکی بھجوائ۔ اس کا جواب موصول ہوا۔ پڑھیے اور مرزا کی ذائقہ شناسی پر سر دھنئے۔

thanksgiving-turkey-dinner

بنام
میان عدنان مسعود

جود و کرم کے دسترخوان کا یہ ریزہ خوار عرض کرتا ہے کہ یہ امریکی مرغابی نما جانور کا خوان مع لوازمات، بزبان فرنگ ٹرکی. وصول پایا اور کام جان کو محبوبوں کے تبسم شور انگیز کی لہر میں لوٹ پوٹ کر دیا۔ دماغ کو بھی طاقت دی اور ہاتھ پاوں کو بھی توانائ بخشی۔ اس کا گودہ اپنے خمیر کی لطافت میں قواے نفسانی کے اضافے کا سرمایہ، نہیں نہیں میں نے غلط کہا، زندگی کے چراغ کے تیل کا مادہ ہے۔ فم معدہ اس کے شوربے المعروف زبان فرنگ گریوی،  کی روانی کا ثنا خوان ہے۔ اور آنتیں اسکے کفچوں کے لذت کے شمار کی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ مکئی کی روٹی نے جب اسکے شوربے کے معیار کو پہچانا تو پہلے حملے میں ہی خوف سے سپر ڈال دی اور جب زبان اس کی روانی کی لذت کی شکرگذاری میں مشغول ہوئ تو شوربے کے آپ حیات کی موج اسکے سر پر سے گذری، اسکی ہڈیوں کے نظر فریب جلوے پر ہما دیوانہ ہو گیا ہے اور اسکے بہتے ہوئے شکرخند و سیب زمینی  کے حسن  پر عقل فریقتہ ہو گئی ہے۔ اور اسکے مصالحے کے مزے  کی تیزی محبوبوں کی اداے عتاب کی طرح گلوسوز تو نا تھی پر کچھ ایسی انجان بھی نہیں، اور اسکی  ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز چنگ و رباب   کے نغمے کی طرح سامع  نواز تھی ۔ میں تو بات  کو طول دینا اور اس نعمت کے بعد صاحب نعمت کا شکر ادا کرنا  چاہتنا تھا کہ اچانک میرے جبڑے نے مجھے ناز کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کیا اور اپنے سر کی قسم دے کر گویا ہوا کہ اپنے ہاتھ  سے قلم فورا رکھ اور  سیب کے مربے و احمر قره قاط  کی لطافت کا مزا چکھ۔

چونکہ مجھے اسکی خاطرداری منظور تھی اور اسکی قسمت پرمایہ تھی لہذا تعمیل کے علاوہ اور کوئ چارہ نا تھا

دعاوں کا طالب

غالب
دلی،  نومبر ۱۸۴۵

 

thanksgiving-turkey-coverایضا، یہ مضمون مرزا نوشہ کے نومبر ۱۸۴۸ کے ایک خط میں یوم تشکر کی رعائت کر کے تصنیف کیا گیا ہے،،

 

Share

ژینت از قیصر تمکین

ژینت
قیصر تمکین

اردو کے ممتاز افسانہ نگار قیصر تمکین کی جانب سے دریاۓ گومتی سے ٹیمز تک ایک کہانی ایک عورت کی داستان، وہ ایک مصور تھی اور خود ایک تصویر.

نمائش کا وقت ساتھہ بجے تھا مگر وہ چھ بجے سے پہلے ہی تیار ہو گیا اور بہت پر تکلف انداز میں پہلی منزل پر آیا. استقبالیہ ہال طے کرتا ہوا وہ لاؤنج میں داخل ہوا. میزوں پرعمومی شمعیں جھل ملا رہی تھیں. پس منظر میں دھیمے دھیمے سروں میں ارغون بج رہا تھا اور اکا دکا جوڑے سرگوشیوں میں مصروف تھے.
وہ بار کے قریب پہنچا تو برابر کے اسٹول پر بیٹھی ہی لڑکی کو دیکھہ کر چونکا. اس کی آنکھیں بہت بڑی بڑی اور بہت کالی تھیں. اس کے بال بھی بہت سیاہ اور لمبے تھے. اس نے سیدھی مانگ نکال رکھی تھی مگر اس کا چہرہ میک اپ سے بلکل خالی تھا دودھ کی طرح اجلا ہوا اور صاف. اس کی حرکات و سکنات میں ایسی تمکنت تھی جیسے وہ کہیں مہارانی ہو. عدّو نے اسے کئی بار نظربچا کر دیکھا پھر بولا. “معاف فرمایئے گا’ میرا خیال ہے’ میں نے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے؟”
وہ بد دماغ اور مغرور سی لڑکی تھی’یہ جملہ سن کرایسی شگفتگی سے مسکرائی کہ عدّو ڈر گیا.” لڑکیوں سے متعارف ہونے کا یہ طریقہ بہت پرانا ہو چکا ہے مسٹر!”
عدّو کچھہ خفیف ہوگیا. اس نے سوچا کہ وہ شاید غلطی پر ہے. چہروں کی مشابہت کبھی کبھی بے حد گم راہ کن ہوتی ہے. وہ اپنا گلاس لے کر وہاں ٹہلنے لگا. اچانک وہ مہارانی قسم کی لڑکی بولی.”اگر آپ گپ شپ کے موڈ میں ہوں تو بیٹھیے. مجھے بھی فی الحال کچھہ فرصت ہے”.
عدّو کی شرمندگی رفع ہو گئی. وہ ایک مشاق مصاحب کی طرح لڑکی کو ایک طرف لے کر چلا. اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اسے اعلا خواتیں کی محفلوں میں کام آنے والے تمام حربے معلوم ہیں.
دونوں چند ثانیوں کے لیے خاموش رہے. نیم تاریک میز پر موم بتی پگھلتی رہی. آخرعدّو نے ابتدا کی. “برسبیل تذکرہ یہ ذکر ضروری ہے کہ خادم کو عدیل کہتے ہیں’ عدیل احمد.”
لڑکی نے بےخیالی میں کہا. “مجھے معلوم ہے.”اس سے پہلے کہ عدّو اس کے جواب پر حیرت کا اظہار کرتا’ دو تین آدمی وہاں آگئے لڑکی فورن کھرے ہو کر ان سے باتیں کرنے لگی.
جب وہ دوبارہ بیٹھی تو عدّو کی پوری توجہ اس کے چہرے کی طرف تھی. لڑکی نے پوچھا.”آپ کیا دیکھہ رہے ہیں؟ کیا شناسائی کی کوئی نئی ترکیب سوچ رہے ہیں؟”
عدّو نے پورے اعتماد کے ساتھہ اردو میں کہا.”ژینت بیٹا! میں سوچ رہا ہوں کہ تم اس آزادی کے ساتھہ شراب کب سے پینے لگیں”.
لڑکی کے ابروؤں پر بل پڑ گئے’ وہ کسی بے تکلف دوست کے بجاۓ پھرایک بددماغ مہارانی نظر آنے لگی. جواب اس نے فرانسیسی ہی میں دیا.” اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں. یہ میرا ذاتی معاملہ ہے.”
اس رکھائی سے القط کے جانے کے بعد عدّو کے پاس گفتگو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا تھا. اسی وقت وہاں دو تین لوگ اورآگئے. لڑکی ان سے باتیں کرتے کرتے بے خیالی میں لاؤنج سے باہر چلی گئی.
اگر کوئی اور لڑکی ہوتی توعدّو دوبارہ اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں کیونکہ اسے نظر انداز کیا گیا تھا مگر اسے شک نہیں، اب یقین تھا کہ لڑکی ژینت ہی ہے اس لیے عدّو کو اس سے ملنے کا اشتیاق ہو گیا. سالہا سال بعد ہزاروں میل دور ایک بلکل نئی زمین اور نۓ آسمان کے نیچے کسی پرانے جاننے والے کا ملنا ایک تقریب ہوتا ہے. زینت سے اس کی قریبی رشتہ داری تھی.

دوسری بارعدّو نے ژینتینت کو مصوری کی ایک نمائش گاہ میں دیکھا. وہ بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی. اس کا نام یقینا ژینت تھا کیونکہ جن تصاویر کے آس پاس اس کے دوست جمع تھے’ اس سب پر ژینیت کے دستخط تھے. ژینیت کاکوری ضلع لکھنؤ کی رہنے والی تھی’ اس کا پیرس کی عالمی تصویر گاہ میں ژینیت بن جانا زیادہ تعجب کی بات نہیں تھی. عدّو غور سے دیکھنے لگا. قریب قریب سب تصویریں ڈراؤنے یا عبرت ناک رنگوں کی آمیزش سے بنائی گئی تھیں اور صرف بچوں کے نقوش پر مشتمل تھیں. یہ بچے حبشہ کے تھے’ بیافرا کے تھے’ کلکتے اور برازیل کے تھے. ان سب کے جسم سوکھے سوکھے اور پیٹ پھولے ہوئے تھے. سب کی آنکھوں سے بھوک اور بیماریوں کا عفریت جھانک رہا تھا. گندگی کے ڈھیر میں لتھڑے ہوئے یہ بچے انسانی تہذیب و ترقی کے تمام دعووں کی تردید کر رہے تھے.
آس پاس بائیں بازو کے مردوں اور عورتوں کا جمگھٹ تھا. مصور ژینیت کی سفاک حقیقت انگیزی نے سب کو جھنجھوڑ کے رکھہ دیا تھا. لوگوں کے چہروں پر ایک کرب تھا اور آنکھوں میں ایک عزم. گویا ابھی باہر نکل کر انقلاب برپا کر دینگے اور انقلاب سے ایک ایسی دنیا وجود میں آۓ گی جس میں کوئی بچہ بھوک سے بلکتا ہوا دم نہیں توڑے گا.
عدّو چھٹی پر تھا. پیرس کی یہ سیر محض تفریح کے لیے تھی. ان دنوں ایک بہت بڑا فلمی میلا چل رہا تھا. عدّو کو اپنی نئی کتاب کا معاوضہ ایک بار پھر ملا تھا، اس کتاب کا سستا ایڈیشن چھاپا جا رہا تھا. اس گھاٹے کی آمدنی کے باوجود عدّو نے قیمتی ہوٹل میں ٹھیرنا پسند کیا. زینت کی تصویریں دیکھہ کر اسے ایک عجیب سا افسوس ہوا. اپنی تمام فلسفہ طرازیوں کے باوجود وہ زینت کی طرح حقیقت کا ایسا برہنہ اور بے رحم مشاہدہ کرنے سے قاصر تھا اور اسے زینت کی ترقی و مقبولیت پر بھی رشک ہو رہا تھا. اسے وطن کی وہ واہیات، نامعقول’ میلی کچیلی سی لڑکی یاد آگئی. وہ بیچارے نوابو چچا کی اکلوتی لڑکی تھی. پھٹے پرانے کپڑے پہنے وہ بس باورچی خانے سے طعام خانے تک جاتی دکھائی دیتی تھی یا پھر ایرے غیرے بچوں کو لادے لادے گھوما کرتی. وہی لڑکی عصر حاضر کی چیختی چنگھاڑتی زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال چکی تھی.
نمائش میں زینت نے اسے ٹرخا دیا تھا. عدّو کو بہت غصّہ آرہا تھا. وہ رات گئے تک ہوٹل کے زمین دوز شراب خانے میں بیٹھا رہا. آخر بلکل ہی تھک گیا تو چوتھی منزل پر اپنے کمرے کی طرف چلا. پورے ہوٹل میں ایسی خاموشی تھی کہ وبیز قالین پراس کی چپ ایک طرح کا شور پیدا کر رہی تھی. گیلری کے موڑ پر ایک کمرے کا دروازہ کھلا زینت نے جھانک کر دیکھا. آیۓ عدّو بھائی! میں آپ کا انتظار کر رہی تھی” عدّو کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ زینت نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ اس وقت آنے والا میں ہی ہونگا؟ دوسرے ہی لمحے عدّو بے تکلف زینت کے کمرے میں داخل ہو گیا.
“بیٹھیے. کیا پیجیےگا؟ کافی یا کچھہ اور؟” زینت نے سنگھار میز کے سامنے اپنے لمبے لمبے بال برش سے برابر کرتے ہوئے کہا. وہ صرف ایک لمبا سا فرغل پہنے ہوئے تھی اور بلکل کشمیرن لگ رہی تھی.
عدّو نے آرام کرسی پر بے تکلفی سے نیم دار ہوتے ہوئے کہا. “تو گویا تم مجھے پہچان گئی تھیں.”

“میں نے آپ کو دوپہر ہی پہچان لیا تھا’ جب آپ ہوٹل کے رجسٹر پر دستخط کررہے تھے.” زینت نے کافی کی مشین بند کردی. بھانپ نکل رہی تھی اور کافی کی بھینی بھینی خوشبو پورے کمرے میں پھیل رہی تھی. اس نے کافی کی پیالی عدّو کے سامنے رکھی اور بولی”. معاف کیجیے گا مجھے سونے سے پہلے نہانے کی عادت ہے ابھی آئی”. یہ کہتی ہوئی وہ غسل خانے میں چلی گئی.

صبح کے چار بج رہے تھے. زینت نہانے میں مشغول تھی، غسل خانے سے دھیمے دھیمے سروں میں داہن ولیمس کے نغمہ بحر کی دھن سنائی دے رہی تھی. دروازے پر کچھہ کھٹ پٹ ہوئی. عدّو نے جا کر دیکھا. صبح کا ویٹر اخباروں کا پلندہ پھینک گیا تھا.

تمام اخباروں کے ثفاقتی صفحات پرگزشتہ رات کی تصویری نمائش کا واقعہ شائع ہوا تھا. ژینیت کی حقیقت پسندی پر سبھی نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے خامہ فرسائی کی تھی. محض قدامت پرست اخباروں کو اس بہانے تیسری دنیا کے مسائل پر درس دینے کا موقع مل گیا تھا.”لائیگرو” کا ٢٣ واں صفحہ رشک و حسد سے پڑھتے ہوئے عدّو کسی خیال میں کھو گیا اور پھر سو گی غازی میاں کی ترقی کے سلسلے میں دعوت تھی. وہ پی’ سی؛ ایس کے آدمی تھے مگر وزیر اعلا نے ان کی کار کردگی سے خوش ہو کر انہیں آئی’ اے’ ایس بنا دیا تھا. اب وہ ضلع کمایوں کے کمشنر ہو کر الموڑے جا رہے تھے. محل سرا کے بڑے دالان میں تخت کا فرش لگا تھا. ادھر ادھر گاؤ تکیے رکھے تھے، ان سے ٹیک لگاۓ دلارے میاں’ خوشبو بھیا’ جانی میاں اور مصنف خالو قسم کے لوگ حقہ پی رہے تھے. ساتھہ ہی وہ پرتاب گڑھ والے سنگھہ کیرون کے قتل پر تبادلہ خیال میں مصروف تھے. صحن میں چاروں طرف پکوان پھیلا ہوا تھا.. لچکے گوٹے کے بھاری بھاری جوڑوں اور پائنچوں سے لدی پھندی عورتیں پسینہ پونچھتے ہوئے وارقی سموسے اور بلائی کے پان وغیرہ بنا رہی تھی. اس گرمی میں تھوڑا سا اضافہ ہو گیا تھا اس لیے کہ جمبو ویپ کی رانی بٹیا بھی برسوں بعد اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھہ پاکستان سے آئی ہوئی تھیں. ان کی ایک بہو انگریز تھیں’ وہ شلوار قمیص پہنے کرسی پر بیٹھی بس مسکراۓ جا رہی تھی. کہنے والوں کا کہنا تھا کہ ڈارلنگٹن کے کسی کیفے میں ویٹرس تھیں مگر رانی بٹیا کو اصرار تھا کہ یہ کسی بڑے لارڈ کی نورنظر ہیں.

بڑی اماں والے دالان میں بچوں کی چوپال جمی ہی تھی. عدّو بھائی حسب معمول ہیرو بنے چہک رہے تھے. وہ غازی میاں اکلوتے بیٹے تھے اور پانچ بیٹیوں کے بعد ہوئے تھے اس لیے سبھی کی آنکھہ کا تارہ تھے..وہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کے خوفناک بولر بھی تھے.اطراف میں کوئی کالج اور اسکول ایسا نہیں تھا جس کی ٹیم کے ایک آدھ کھلاڑی کا سر عدّو بھائی کی بولنگ سے نہ پھٹا ہو. بڑے بڑے چوے چھکے اڑانے والے بلے باز بھی ان کی پستول کی گولی جیسی گیند سے گھبراتے تھے.
عدّو بھائی کا عام معلومات کے مقابلوں میں بھی شہر کے گنے چنے طلبہ میں شمار ہوتا تھا. انہیں بچوں سے بہت محبت تھی’ وہ بچوں ہی کے ہیرو تھے. وہ بچوں کو عام معلومات بتاتے پھر ان سے سوالات کرتے. ایک دن انہوں نے کسی لڑکے سے سوال کیا. “اچھا بتائیے جناب!” ٹیلی فونے کس نے ایجاد کیا تھا؟”
سب بچے بغلیں جھانکنے لگے. نوابوچچا کی لڑکی جنو چندن آپا کا موٹا تازہ بچہ گود میں لیے ذرا دور کھڑی تھی’ بول اٹھی.”گراہم بیل نے سنۂ ١٨٧٦ میں”.

بچے مڑ کر دیکھنے لگے. عدّو بھائی نے بھی جننو کو قدرے ناگواری سے دیکھا. وہ میلی کچیلی جھبرے جھبرے بالوں والی لڑکی کسی بھنگن کی اولاد لگ رہی تھی لیکن سوال کا جواب صحیح بتا رہی تھی. ایک بچہ چمکیلی پھول دار شرٹ پہنے ہوئے تھا’ وہ غصّے میں بولا “چل ہٹ یہاں سے. مہترانی کہیں کی.” جنو کے آنسو نکل پڑے. وہ وہاں سے ہٹ گئی.
عدّو بھائی نے رسمی طور پر بچے کو سمجھایا.”نہیں بھیا! ایسا کسی کو نہیں کہتے. بری بات ہے”.

منجھلی ممانی نے دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے ایک جھوٹی پلیٹ میں کئی پلیٹوں کا بچا ہوا قورمہ، قلیہ، دال اور ترکاری وغیرہ جمع کر کے اس کے اوپر ادھر ادھر کے بچے ہوئے چاول ڈالے اور پھر اس ملغوبے پر دو چپاتیاں تہ کر کے پٹخ دیں اور حاتم کی قبرپرلات مارتے ہوئے پکاریں. “اے کوئی جنو کی ماں کو بھی کھانا دے آتا”

جننو کی ماں یعنی عفت آراکراستھویٹ کالج کی گریجویٹ تھیں. انہیں فیشن’ بناؤ سنگھار اور نمودونمائش کا شوق تھا مگر ان کی شادی اردو کے ایک ادیب سے ہوگئی’ ان کی واحد خوبی یہ تھی کہ وہ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے. رشوت اور قرض لینے سے نفرت کرتے تھے’ خوشامد اور دربار داری کے بھی قائل نہیں تھے چناچہ اول دن سے محض کلرک رہے. گھر میں آۓ دن فاقے رہتے. جنو کی ماں فیشن وغیرہ کیا کرتیں’ سال میں ایک جوڑے کو بھی ترسنے لگیں. ان حالات کے باعث انہیں پہلے کچھہ سنک ہوگئی. مالی طور پر اپنی بہنوں کے مقابلے میں ان کی اوقات ایک چمارن سے بھی کم تھی. رفتہ رفتہ وہ واقعی دیوانی ہو گئیں.

جنو کی پگلی اماں کوٹھے پر ایک سائبان کے نیچے پڑی ہوئی چارپائی پر دیوار کی طرف منہ کے بیٹھیں تھیں. وہ تھوڑی دیر بعد ناخنوں سے دیوار کا چونا یا پلاستر کھرچ کر کھا لیتیں اور آپ ہی آپ ہنسنے لگتیں جب کوئی آنے جانے والا گزرنے لگتا تو بهکارنوں کی طرح رٹتیں.”دودھ ملیدہ النی دے گا. دودھ ملیدہ النی دے گا.” یعنی الله ہی دے گا. ان کے پلنگ کے پاس پرانے کپڑوں کے ڈھیرپر جھبری جھبری میلی کچیلی جنو سو رہی تھی. اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور ایک تانگ تو بلکل ننگی تھی. مکھیوں سے بچنے کے لیے اس نے پھٹی ہوئی دھجی جیسی اوڑھنی سے منہ ڈھک رکھا تھا. عدّو نے یہ منظر کتب خانے سے کھلی ہی چھت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا. شاید کچھہ سوچا بھی ہو مگر پھر وہ بہت سارے پیارے پیارے گول مٹول بچوں میں جا کر چہکنے لگا.
عدّو کو زینت کا ایک خاصا مشہور واقعہ بھی یاد آیا. جنو کے والد نوابوچچا کے دو لڑکے بھی تھے. بڑا لڑکا محمود عام مسلمانوں کی طرح ہائی اسکول میں فیل ہوتا رہا پھر سینما، سگریٹ’ اردو شاعری اور فیشن پرستی کی لتوں میں پڑگیا. باپ نے سمجھانے کی کوشش کی تو پاکستان بھاگ گیا. وہاں بھی بات نہ بنی تو کینیڈا چلا گیا. کینیڈا میں اس نے پرچون کی دوکان کھول کے کسی فاقہ زدہ اطالوی فاحشہ سے شادی کرلی تھی مگر اب اس کی بیوی نہایت نیک خاتون بن گئی تھی. محمود اگر باپ کے مسلسل تقاضوں پر کبھی ایک آدھ خط لکھتا بھی تو اپنی مصیبتوں اور بدنصیبوں کا رونا زیادہ روتا محض اس ڈر سے کہ باپ اس سے کہیں مالی امداد کی توقع نہ کر بیٹھے.
دوسرا لڑکا احمد زینت سے چھوٹا تھا. وہ شروع سے کمزور تھا اور مسلسل بیماریوں کی وجہ سے دھان پان پان ہو کر رہ گیا تھا. اس کی ایک ٹانگ میں خضیف سالنگ بھی تھا. چناچہ وہ اپنے ساتھی بچوں میں ہمیشہ ہنسی مذاق کا نشانہ بنتا. اکثر شیطان لڑکے اس کی ضروری اور غیر ضروری ٹھکائی بھی کرتے رہتے. ایک دن زینت کونوں کھدروں سے کاٹھہ کباڑ نکال کر ڈھوپ میں ڈال رہی تھی. اس نے احمد کو سائبان کے کونے میں چپ چاپ بیٹھے دیکھا’ وہ گرج کر بولی.”تم اسکول نہیں گئے؟” احمد نی کوئی جواب نہیں دیا. زینت ایک سخت گیراستانی کی طرح اس کے سرپر جا دھمکی اور اسے جھنجھوڑ کر بولی.”جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں تم سی کچھہ پوچ رہی ہوں.” احمد نے بے چارگی سے بہن کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے. زینت کا دل ہل گیا. اس کی ساری شفقت’ محبت اور توجہ کا مرکز صرف احمد تھا. ماں کی جگہ زینت اس کی خبر گیری
کرتی تھی اس نے بھلا پھسلا کر احمد سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ احمد نے کہا کہ اسکول میں لڑکے اسے چھیڑتے ہیں. کل ایک لڑکے نے کہا کہ تیرا باپ بھک منگا ہے. احمد نے یہ بھی کہا کہ وہ اب اسکول نہیں جاۓ گا’ پڑھنے لکھنے سے کوئی فائدہ نہیں. اب وہ کسی دوکان میں نوکری کر لےگا. زینت کا چہرہ تمتما اٹھا مگر وہ کچھہ بولی نہیں.

دوسرے دن احمد کو اپنے ساتھہ لے کر زینت اسکول گئی.اسکول کے پاس دونوں طرف درختوں کی قطاریں تھیں. پپھاٹک سے پہلے مور پنکھی اور مہندی کی گھنٹی باڑیں لگی تھیں. زینت ذرا ہت کر کھڑی ہو گئی. احمد کو اس نے ٹھیل کر اسکول کی طرف بھیجا. ابھی گھنٹہ بجنے میں دائر تھی، زیادہ تر لڑکے پھاٹک کے باہر ہی دھماچوکڑی مچا رہے تھے. سنگھاڑے، مونگ پھلی اور امرود بیچنے والے بھی اپنے اپنے ٹوکرے سجاۓ بیٹھے تھے.
احمد پھاٹک میں داخل ہو رہا تھا. اچانک ایک لڑکا تیزی سے اسے دھکا دیتا ہوا آگے بڑھ گیا. احمد کے ہاتھہ سے کتابیں گر پڑیں’ وہ انہیں سمیٹنے جھکا ہی تھا کہ ایک دوسرے لڑکے نے اس کی ٹوپی اتار کر جھاڑیوں کے دوسری طرف پھینک دی. پہلا لڑکا واپس آگیا اور ہنس کر بولا.”یہ کتابیں تیری بہن چرا کر لائی ہے.” یہ سننا تھا کہ زینت بھوکی شیرنی کی طرح لپکی. اس نے فقرہ کسنے والے لڑکے کو پوری طاقت سے دھکا دے کے زمین پر گرادیا اور اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی اسے بندر کی طرح بھنبھوڑ کھایا. پھر اس زور سے اس کی کلائی میں کاٹا کہ خون نکلنےلگا.
اسے روتا ہوا چھوڑکر زینت دوسرے لڑکے کی طرف متوجہ ہوئی. اس کے گریبان میں ہاتھہ ڈال کر زینت نے تیزی سے کھینچا. اس کی قمیص پھٹ گئی اورگلے میں پھانسی سی لگنے لگی. وہ بچنے کے لیے جھکا تو زینت نے چپل اتار کر بے تکان اس کی پٹائی شروع کردی. لڑکے کی سوچنے سمجھنے کی قوت سلب ہوگئی. وہ ہاتھہ چھڑا کر بھاگنے یا ایک لڑکی سے دھینگا مشتی کرنے کے بجاۓ بے بسی سے پیٹے جا رہا تھا گویا کوئی استاد اسے سزا دے رہا ہو. زینت کے ہاتھہ بھی چل رہے تھے’ زبان بھی ، وہ پرانے زمانے کی بھٹیارنوں کی طرح گالیاں بک رہی تھی. چپراسیوں’ سودے والوں اور ماسٹروں کے ہوش اڑے جا رہے تھے. یہ تماشا کوئی ساتھہ منٹ جاری رہا پھر زینت خود تھک گئی اور لڑکے کے منہ پر زور سے تھوک کر الگ ہو گئی پھر اپنی سانسیں قابو میں کرتے ہوئے اس نے سڑک کے کنارے سے اپنا دپٹا اٹھایا. دوپٹا گرد میں آٹا ہوا تھا. زینت نے اسے گلے میں مفلر کی طرح ڈالا اور احمد کا ہاتھہ پکڑ کر اسے پھاٹک کے اندر لے جانے لگی.
ہیڈ ماسٹر راۓ آنند رام بے کس فیض آبادی شور سن کر اپنے کمرے سے بھر نکل رہے تھے. وہ اپنی عادت کے مطابق ہاتھہ میں بید گھماتے پھاٹک کی طرف چلے ہی تھے کہ ان کی مڈبھیڑ رضا نواب حسن کی صاحب زادی زینت حسن سے ہو گئی. زینت حسن اس شان سے آرہی تھیں کہ ان کے پیچھے ماسٹروں’ لڑکوں، چپراسیوں اور سودے والوں کا باقاعدہ جلوس تھا. زینت گرج کر بولی. “یہ میرا بھائی احمد حسن ہے. اگر اب کسی حرام زادے نے اسے کچھہ کہا تو میں آپ کے پورے اسکول کو لڑکوں سمیت آگ لگا دوں گی. کھری سیدانی ہوں میں. مجھے کوئی دیسی ویسی مت سمجھیے گا.”
ہیڈ ماسٹر راۓ آنند رام بے کس فیض آبادی ایم’ اے’ ایل’ ٹی کا منہ کھلا رہ گیا. ایک لڑکی کی زبان سے یہ زور دار باتیں سن کر وہ ساری ہیڈ ماسٹری بھول گئے. ان کی کچھہ سمجھہ میں نہیں آیا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں. زینت ایک شاہانہ دبدبے کے ساتھہ پھاٹک کی طرف مڑگئی. باہر اس نے اشارے سے ایک رکشا بلایا اور بڑے ٹھستے سے بیٹھہ گئی. ایسے جیسے نادر شاہ دلی لوٹ کر واپس جا رہا ہو.

اس ہنگامے کا ذکر جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلی دبالی. پورے شہر میں زینت کی دھاک بیٹھہ گئی. خوانچے فروش اور پھیری والے بھی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈرنے لگے. رکشے والوں کا تو کیا ذکر ہے. سٹی اسٹیشن اور تھانا وزیر گنج کے پولیس والے بھی اس کا بڑی بٹیا کہ کر ادب کرنے لگے.

جنو کے بارے میں ایک تاثر عدّو کو اور یاد تھا. وہ اپنے کالج سے نکال دی گئی تھی کیونکہ اس نے اپنی پرنسپل کے خلاف ایک اخبار میں یہ خط شائع کرا دیا تھا کہ کالج کی پرنسپل مسز جارڈن نے طالبات کو وزیر اطلاعات کی انتخابی مہم میں حصّہ لینے پر مجبورکیا اور انتخاب میں کام کرنے والی لڑکیوں کی جھوٹی حاضری بھی لگا دی.
عدّو کو ان تمام لوگوں سے چڑتھی جو بڑوں سے بدتمیزی کرتے، اسکولوں میں ہڑتالیں کراتے یا نظم و نسق کے ذمے داروں یعنی کسی بھی عہدے دار یا افسر کی نافرمانی کرتے. وہ ایک روایتی قدامت پسند تھا اس کے دادا، پردادا نے انگریزوں کی خدمت کی تھی پھر باپ اور چچا نے بھی اسی لگن اور وفاداری سے کانگریسیوں کی خدمت کی تھی اور اب وہ خود بھی اسی ڈھرے پر چل رہا تھا. اس نے بے’اے، کے بعد ہی پولیس سروس کے مقابلے میں تحریری امتحان پاس کرلیا تھا اور اب انٹرویو کے لیے اس کی کال بھی آگئی تھی.

زینت کے بارے میں وہ بہت جھنجھلایا. اسے خیال آیا کہ اگر کہیں لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اس کے خاندان کی ایک لڑکی بائیں بازو کی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے کریر پر اثر پڑ سکتا ہے.
بہت دنوں بعد اپنے وطن میں عدّو کو زینت کے بارے میں ایک اخبار سے کچھہ معلوم ہوا. کسی ثقافتی تقریب کے سلسلے میں زینت کا فوٹو چھپا تھا. عدّو نے فوٹو کئی بار دیکھا. زینت اچھی خاصی خوبصورت نظر آرہی تھی. بعد میں عدّو کی بیوی نے وہ اخبار چولھے میں جھونک دیا.

اب کوئی تیرہ برس کے بعد وہ زینت کو پھر دیکھہ رہا تھا. اس نے آہٹ محسوس کر کے اخبار ایک طرف کیا. اس کے سامنے زینت اسٹوڈیو کوچ پر خاموشی سے بیٹھی اطالوی نشات ثانیہ کے کسی بھولے بسرے مصور کی میڈونا لگ رہی تھی. اس کا ذہن بھی غالبا گزرے دنوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا. عدّو کی سمجھ میں کچھہ نہیں آیا تو بولا.”یہ ماننا پڑے گا کہ تم بہت خطرناک طور پر حسین و دلکش ہو گئی ہو.”
“شکریہ. مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یورپ کی ریا کاری سے بہت کچھہ اثر قبول کیا ہے.” عدّوخفیف بھی ہوا اور جزبز بھی مگر زینت نے فورا موضوع بدل کر پوچھا. “آپ نے بتایا نہیں کہ پیرس میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو کہیں آئی جی ہونا چاہیے تھا. کیا کسی انٹرپول سے وابستہ ہو گئے ہیں؟”
“میں نے سرکاری ملازمت تین چار سال بعد ہی چھوڑ دی تھی.” عدّو کو خیال ہوا کہ زینت اس کے بارے میں مزید استفسار کرے گی مگر اس نے کسی اشتیاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ بولی. “میں آج شام دینی زوئلا جا رہی ہوں. شاید آپ سے پھر ملاقات نہ ہو اس لیے بہتر ہے کہ آپ ناشتہ یہیں کیجیے. اس کے بعد میں پورا دن اطمینان سے سونے میں گزاروں گی.”
عدّو ہی ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا. اس نے زینت کو بتایا کہ کس طرح اس نے ایک فساد کی اطلاع وزیر داخلہ کو بھجوائی اور کس طرح فرقہ پرستوں نے اس کے خلاف جھوٹی مہم چلادی. اخباروں اور اسمبلی میں اس کے بیان کی صداقت تسلیم نہیں کی گئی اور اس کا تبادلہ ایک غیرآباد جگہ کر دیا گیا. اس نے جنجھلا کر استعفا دے دیا. نوکری چھوڑنے پر سسرال والوں نے اسے احمق اور پاگل قرار دے دیا’ خود اس کی بیوی بھی اپنے بچے کو لے کر الگ ہو گئی. عدّو نے ایسی ہتک محسوس کی کہ سب کچھہ چھوڑ چھاڑ کر جلا وطنی اختیار کرلی اور اب لندن میں ایک ممتاز اخبار میں جھک مار رہا ہے جسے بعض لوگ صحافت کا نام دے کر خاصا رومان محسوس کرتے ہیں.
بہ ظاہر زینت نے سب کچھہ دلچسپی سے سنا مگر اسے نیند آرہی تھی. اس کی آنکھیں واقعی بند ہونے لگیں تو عدّو کو احساس ہوا. وہ رخصت ہو گیا. چلتے وقت اس نے زینت کو اپنا کارڈ دیا. کارڈ پر لندن کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر درج تھا.
بھر ناترے دیم کے گھنٹے بج رہے تھے اور پیرس میں خزاں کا ایک اور بیمار بیمار سا اتوار شروع ہو چکا تھا.

وہ اپنے دفتر سے باہر آیا. ستمبر کی زرد زرد رات فلیٹ اسٹریٹ کو اپنے دامن میں چھپاۓ ہوئے تھی. زیادہ تر اخباروں کے پہلے ایڈیشن چھپ چکے تھے اور شاہ راہ پر اخباروں سے بھری ہوئی لاریاں دندناتی پھر رہی تھیں. عدّو نے گاڑی خاصی دور کھڑی کی اور پیدل پریس کلب کی طرف چلا.
وہاں سناٹا تھا’. دو چار معمز صحافی خاموشی سے سگار پینے میں مصروف تھے. ان کے سامنے سسستی قسم کی لاگر کے گلاس شطرنج کے مہروں کی طرح رکھے ہوئے تھے. وہ بہت سوچ کرگلاس اٹھاتے اور ایک گھونٹ لے کر پھر اپنے بےمعنی خیالوں میں کھو جاتے. بعض تو اس طرح بیٹھے تھے گویا اب صور اسرافیل ہی انہیں اٹھاۓ گا. یہ ممی خانے جیسی خاموشی جان منچ نے توڑدی. وہ دو تین فوٹو گرافروں سے سرگوشیوں میں مصروف تھا.عدّو کو دیکھہ کر وہ اس کی طرف آگیا. جان منچ فلیٹ اسٹریٹ کے ایک بدنام ترین فحش نگار اور فضیحتہ نگار اخبار میں ڈائری کا نگران تھا اور اکثرو بیشترازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات میں پیش ہوتا رہتا تھا. اس نے عدّو کو زبردستی ایک تقریب میں چلنے پرمجبورکردیا.
تقریب عدّو کے اخبار کی سو سالہ سالگرہ کے سلسلے میں ہو رہی تھی. اس کے پاس باوقار پاس موجود تھا لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی. پیلس سے ایک میل پہلے ہی باوردی اور سادہ کپڑوں میں پولیس کا ہجوم تھا. اسے کئی جگہ روک کراپنا پاس دکھانا پڑا. پھر بھی پیلس کے پاس گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل سکی.
ہیمپٹن کورٹ پیلس طوفان نغمہ ورنگ اور نوروسرووکی بنا پر الف لیلہ کی کسی کہانی کا ایک بڑا ٹکڑا نظر آرہا تھا. شاہی گھرانے کے افراد کے علاوہ دنیا کے تقریبا سبھی قابل ذکر لوگوں کا ہجوم تھا. دو ڈھائی ہزار مہمانوں میں پانچ چھہ سو خفیہ پولیس والے بھی معززین و عمائد بنے گھوم رہے تھے. جان منچ ہجوم میں غرق ہو گیا گویا کوئی مچھلی دوبارہ پانی میں پہنچ گئی ہو مگر عدّو اکا دکا جاننے والے کو رسمی اور سرسری اشارے کرتے ہوئے بھٹکنے لگا. کسی نے کسی مسئلے پر تبادلہ خیال یا موسم کا حال جاننے کی کوشش کی تو وہ جلدی سے معذرت کر کے الگ ہو گیا.

اسی بوریت میں اسے زینت دکھائی دی. وہ اپنے پورے بدن پر ایک سفید چادر لپیٹے ہوئے تھی. اس کے شانے بلکل ننگے تھے. اس کی پیٹھہ بھی بلکل ننگی تھی. صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس نے بلاؤز وغیرہ نہیں پہنا ہے. اس کے کالے کالے بال آدھے تو کمر پر لٹک رہے تھے اور آدھے اس کا سینہ ڈھکے ہوئے تھے. وہ بلکل یونانی اساطیری دیوی تھالیا لگ رہی تھی. ایک ممتاز امریکی سینیٹر کی بیوی بہ ظاہر اسے بنگلادیش کی غربت کے مسئلے پر بصیرت سے معمور کر رہی تھی کہ کس طرح یہ مجسمہ خرید کر اپنے ڈرائنگ روم کے کسی شوکیس میں سجالے.
زینت یقینا کوفت میں مبتلا تھی. وہ عدّو کو دیکھتے ہی سینیٹر کی بیوی سے معذرت کرکے اس کے پاس آگئی.”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کب آئیں؟” عدّو نے پوچھا. وہ محویت سے زینت کو دیکھہ رہا تھا. اس کے سفید شانوں پر سیاہ بال یقینا جان منچ کے لیے ایک ڈائری نوٹ فراہم کر سکتے تھے. وہ بہت سادہ ہونے پر بھی اتنی سنسی خیز فیشن ایبل لگ رہی تھی کہ آس پاس کی متعدد جان بہاراں اور شمع انجمن قسم کی خواتین رشک میں مبتلا تھیں. برا نہ ماننا کہنا پڑرہا ہے کہ تم انتہائی دل فریب نظر آرہی ہو.”

زینت نے کچھہ کہا ضرور مگرعدّو نے سنا نہیں. محل کے کونوں میں گھیرے درختوں کے کنجوں میں چھپے ہوئے بہترین بینڈ جذبات انگیزدھنیں چھیڑ رہے تھے، دو آدمیوں کا عام آواز میں گفتگو کرنا بہت مشکل تھا. معلوم نہیں کیوں عدّو کو یہ دیکھہ کر ایک طرح کا سکون ہوا کہ اعلا ترین مشروبات موجود ہونے کے باوجود زینت صرف ٹماٹر کا عرق پی رہی ہے. وہ اس بارے میں کچھہ کہتا مگر زینت کی تنگ مزاجی سے کچھہ ڈر لگا.

جان منچ ہر قیمت پر ہر مفید آدمی سے تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھا. عدّو کے ساتھہ زینت کو دیکھہ کر وہ ادھر آگیا اور زینت کے بارے میں کوئی چٹ پٹا شگوفہ چھوڑنے کے خیال سے اس کے پیچھے ہی پڑ گیا. عدّو کو برا بھی لگا مگر وہ کچھہ کہے بغیر دوسروں سے ملتا جلتا ہوا ہجوم میں غائب ہو گیا اور اس طرح باہر نکل آیا کہ کسی کو پتہ نہیں چلا.
رات کے دو بج رہے تھے مگر پکڈلی میں چاندنی چوک کا سماں تھا. ساؤتھمپسٹن رو سے ٹیوی اسٹاک پیلس کی طرف جاتے ہوئے وہ خود سے باتیں کر رہا تھا. “یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھہ ہر چیز بدل جاتی ہے مگر بسا اوقات حالات ایسا موڑ اختیار کرتے ہیں کہ یقین نہیں آتا. اب بھی دیکھیے میں عدیل احمد عباسی آئی، پی، ایس اس طرح بدلا ہوں گویا ہمیشہ سے بائیں بازؤ کی دانش ورانہ سرگرمیوں سے متعلق رہا ہوں. دوسری طرف جنو ہے. وہ میلی کچیلی غریب لڑکی اس طرح بدلی گویا ہمیشہ سے بین الاقوامی جٹ سٹ کی رکن رہی ہو. اس کی آنکھیں اف’ کیا ہمیشہ اتنی بڑی بڑی تھیں؟ اگر تھیں تو میں نے بچپن میں غور کیوں نہیں کیا؟” زینت کے بارے میں یہ سب کچھہ سوچتے ہوئے عدّو کے دل میں نہ تحقیر کا جذبہ تھا’ نہ رسک و حسد کا وہ بلکل غیر جانب دارانہ طریقے سے سوچ رہا تھا. جیسے میسیکو یا برازیل کے بارے میں کوئی ادارتی نوٹ لکھ رہا ہو.
کلیر کورٹ کے فلیٹ میں آرام کرسی پر وہ باقاعدہ کپڑے پہنے نیم دراز تھا. اسے خیال آیا کہ زینت کے گھر والوں کے ساتھہ کیسا اہانت آمیز سلوک ہوتا تھا پھر بھلا اسے کیا حق ہے کہ وہ زینت سے کسی دوستی یا مرحمت کی توقع کرے. وہ نۓ زمانے کے ساتھہ تھی اور میں؟
میری تمام جدوجہد ہمیشہ دوسرے اور تیسرے درجے کے متوسط مسلمان گھرانوں کی ذہنیت کی مظہر رہی، باپ دادا سے آج تک میں بس ایک ڈھرے پر چلتا رہا. وہ ڈھرا جہاں اچھی ملازمت اور اچھا کھانے پہننے کے سوا کچھہ نہیں ہوتا. دادا نے باقاعدہ رشوتیں لے کر جائیداد کھڑی کرلی، باپ نے گوپھوہڑپن سے حرام کمائی نہیں بٹوری مگر ان کے پاس بھی ناجائز تحائف کی بھر ماررہتی تھی. پانچوں لڑکیوں کی شادی انہوں نے دھوم دھام سے کی. یہ اچھے خاصے نوابوں اور تعلقہ اداروں کے بس کی بات بھی نہیں تھیں. آخر یہ سب کہاں سے آیا؟ میں نے ایک بار اصول پرستی کا سہارا لیا تو ملازمت سے ہاتھہ دھو بیٹھا مگر یہ کوئی بہت بڑی قربانی تو نہیں تھی. اصول تو زینت کے باپ کے تھے. نوابو چچا نے ہمیشہ غربت اور ذلت کے دن گزارے. انہیں دربار داری اور جاہ پرستی سے ازلی بئیر تھا. ان کا پورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا مگر انھوں نے کبھی رشوت نہیں لی. ان کا کہنا تھا کہ حلال کی کمائی کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو’ اس میں برکت ہوتی ہے. ویسے ہم نے کبھی ان کے گھر میں برکت ورکت دیکھی نہیں’ ہمیشہ فاقے رہا کرتے. کبھی کبھی تو انکے گھر میں عید کے دن بھی چولھا نہیں جلتا تھا. نوابو چچا کی مفلسی ان کی تحقیر و تذلیل اور فاقہ کشی کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ تھاکہ ان کے تمام سسرال والے یعنی ہم سب لوگ انہیں ملامت کے قبل سمجھتے تھے، اچھوت سمجھ کر کتراتے تھے. میرا خیال ہے’ میرے گھرانے میں کبھی ایک اچھا جملہ بھی نوابو چچا کے لئے استعمال نہیں کیا گیا. عدّو کو نوابو چچا کا حلیہ یاد آیا. میلے کچیلے کپڑے تار تار شیروانی، ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا جسم’ ہونق چہرہ اور بے نور آنکھیں. گھر میں ہر وقت توتکار اور بک بک جھک جھک نے ان کی بیوی کو دیوانی بنا کر رکھہ دیا تھا. نوابو چچا کا بڑے اطمینان سے محلے کی مسجد میں جاکر اور اردو وظائف میں مبتلا رہنا بھی عدّو کو یاد تھا. وہ تھے تو اچھے وجیہہ، خوبصورت اور علی گڑھ کے بذلہ سنج گریجویٹ مگر اس طرح ٹوٹ پھوٹ گئے تھے کہ ہمارے گھر میں ہر شخص انھیں جاہل، نالائق، خبطی، ناکارہ اور کندہ ناتراش سمجھتا تھا. مگر آج میں نوابوچچا کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟ ہان نوابوچچا کا انتقال بھی تو عجیب طریقے سے ہوا تھا. وہ جب ملازمت سے سبک دوش ہو کر آۓ تو قیمتیں آسمان پر تھیں. ان کی ٣٤ روپے کی پینشن سے گھر کا خرچ تو نہیں چل سکتا تھا اس لیے وہ لکھنؤ کے فتح گنج بازار میں غلہ فروشوں کے ہاں اناج کے بورے ڈھونے لگے. ایک دن ایک بوری اپنی کمر پر لادے ہوئے وہ کسی خریدار کے حکم کی تکمیل میں مصروف تھے، اچانک ان کا پیر پھسلا اور نالے میں گر پڑے. دو تین ہی دن میں الله کا شکر ادا کرتے ہوئے دنیا سے سدھار گئے. ان دنوں ان کے بڑے صاحب زادے اپنی بیوی کے ساتھہ اٹلی کے آثار قدیمہ کی تفریح میں مشغول تھے. والد کے انتقال پر انہوںنے زینت کو لکھا. “میں ہمیشہ سے بدنصیب رہا ہوں. میری ازلی بدنصیبی دیکھو کہ آخر وقت میں ابو میاں کو دیکھہ نہ سکا. پتہ نہیں قدرت کو میرے ساتھہ کیا ضد ہے کہ ساری بدنصیبیاں میرے ہی مقدر میں لکھہ دی گئی ہے.”

ان حالات کی روشنی میں زینت کو اگرمیرے گھر والوں سے یا مجھہ سے چڑ ہے تو اس کا کیا قصور؟ اس نے الماری کھولی اور شی واز ریگل کی بوتل نکالی پھر ایک حسین گلاس میں یہ آب نشاط انگیز انڈیلا مگر معلوم نہیں کیوں اسے اس کی بو ہی سے کراہت ہوئی. اس نے گلاس چھوڑ دیا اور دھیرے دھیرے جا کر پھر آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا. ہندوستان چھوڑنے کے بعد آج اسے پہلی بار اپنی بیوی کا خیال آیا. سعیدہ! سعیدہ! مگروہ بھی کیا کرتی، وہ ایک ایسے گھرانے کی پروردہ تھی جہاں عہدے، ترقی، کپڑے لتے، زیور اور موٹر کی پرستش ہوتی ہے. اس کے سامنے عفت خالہ کاانجام تھا. وہ عفت خالہ کی طرح دیوانی ہو کر دیواروں کا پلاستر کھانے کے لیے تیار نہیں تھی. وہ تو آرام سے زندگی گزارنے آئی تھی. میرا ملازمت اسے استعفا اس کے خیال میں پاگل پن تھا. جس طرح اپنے ماحول کی پیداوار تھا. اسی طرح سعیدہ بھی اپنے ماں باپ کے معیاروں میں پروان چڑھی تھی مگر زینت! لاحول و ولاقوت. میں زینت کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟
کرسی پر لیٹے لیٹے اس کی آنکھہ لگ گئی. وہ طرح طرح کے الجھے الجھے، بے تکے اور بے سروپا خواب دیکھتا رہا.

رات کے آٹھہ بجے کے قریب عدّو اپنے دفتر میں تھا. اس نے اطمینان سے پیر اٹھا کر میز پر رکھے اور آرام دہ کرسی پر تقریبا لیٹتے ہوئے اخبارات دیکھنے لگا. نیویارک ہرلڈ ٹریبیون’ لیون برگ زائٹنگ، کوریلا ڈیلاسیرا، واشنگٹن پوسٹ، الاہرام اور لائیگرو وغیرہ. وہ سرخیوں پر سرسری نظرڈالتا، ادارتی کالم ذرا توجہ سے دیکھتا اور پھر پورا اخبار اٹھا کرکونے میں پھینک دیتا. البتہ لائیگرو اس نے نہیں پھینکا بلکہ ثقافتی صفحے پڑھتے ہوئے معلوم نہیں کیا سوچنے لگا. معا ٹیلی فون کی روشنی جلنےلگی. اس نے رسی ور اٹھایا. “میں زینت بول رہی ہوں.”
عدّو اچھل پڑا. “ہاں. ہاں. کہاں ہو؟ لندن میں؟ کیا کہا’ کہاں؟ میرے فلیٹ میں؟” عدّو چکرا گیا.زینت نے بتایا کہ وہ رسل اسکوائرکے ایک ہوٹل میں ٹھیری ہوئی ہے’ اسے خیال آیا کہ قریب ہی عدّو کا فلیٹ ہے اس لیے اس نے وہاں جا کر پوچھا. پہرے دار نے اسے عدّو کی رشتےدار سمجھہ کر فلیٹ کھول دیا چناچہ اب وہ وہاں اپنی پسند کے کھانے پکا رہی ہے.
“امید ہے آپ اس بے تکلفی پر خفا نہیں ہوں گے.” زینت کی آواز آئی.
“نہیں نہیں بھئی. کیسی باتیں کر رہی ہو مگر کمال کر دیا تم نے اچھا خوب.”عدّو نے گھڑی دیکھی’ پہلا ایڈیشن چھپ کر آنے میں ابھی دیر تھی. اس نے زینت سے کہا.”تم وہیں ٹھیرو یا اپنے ہوٹل کا نمبردے دو’ مجھے یہاں سے نکلنے میں دیر لگے گی.”
“نہیں. میں ہوٹل تو دائر میں جاؤنگی. کہنا یہ ہے کہ آپ کھانا باہر نہ کھائیے گا. میں نے یہاں پکا رکھاہے’ آپ بھی کیا کہیں گے.” زینت بڑی بے تکلفی سے بول رہی تھی. عدّو کو اپنی بہنیں عطیہ اور زہرا یاد آگئیں. وہ دونوں اس سے بس سال’ دو سال بڑی تھی اور اس کی تقریبا دوست تھیں. باقی تین بہنیں اس سے بہت بڑی تھیں’ وہ زیادہ تر اپنے بال بچوں میں مبتلا رہتی تھیں
عدّو ملے جلے جذبات کے ساتھہ گھر پہنچا. اسے یہ سوچ کر ہنسی آرہی تھی کہ زینت کیسے مزے سے اس کے فلیٹ میں آ گئی گویا ہمیشہ سے میری اس کی بےتکلفی ہو.
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اس نے باتوں کی آواز سنی اس پر بجلی سی گری. کون ہو سکتا ہے زینت کے ساتھہ؟ وہ ٹی وی والے کمرے میں داخل ہوا. صوفے پر کوئی شخص بیٹھا تھا. اس کی قومیت اور شہریت کے بارے میں عدّو اپنے تجروبے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں کرسکا. کمرے میں روشنی کا زاویہ ایسا تھا کہ اس کا تقریبا آدھا وجود نیم تاریکی میں تھا، زینت نے اٹھہ کر عدّو کا استقبال کیا. وہ صرف جین اور جمپر پہنے ہوئے تھی اور ایس او’ ایس یعنی ایشیائی اور افریقی مطالعات کے اسکول کے نوجوان حلقوں کی رکن رکیں معلوم ہو رہی تھی. وہ دونوں چاۓ پی رہے تھے. زینت نے عدّو سے کہا.”ان سے ملیے. میرے اچھے دوست ہیں’ ایاندو”.
ایاندو نے اٹھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے مصافحہ کے لیے ہاتھہ بڑھا دیا. عدّو نے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ غائب ہے. رسمی طور پر علیک سلیک کے بعد عدّو اپنی خواب گاہ میں کپڑے بدلنےگیا.وہاں یہ دیکھہ کراسے سخت تعجب ہوا کہ ہر چیز نہایت قاعدے سے رکھی ہوئی ہے.
“ہم لوگوں نے آپ کے انتظار میں کھانا نہیں کھایا. زینت نے اسے کھانے کے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے کہا. زینت کے پیچھے ایاندو اپنی بے ساکھی کے سہارے چلرہا تھا اور اس کے پیچھے عدّو تھا. عدّو اس اچانک یلغار پر کچھہ گڑبڑایا ہوا تھا.
کھانے کی میز پر پلیٹیں سلیقے سے رکھی تھی. زینت نے چند منٹ میں کھانا چن دیا. عدّو کی بھوک چمک اٹھی. ایاندو بھی کسی جھجک کے بغیر ہر چیز رغبت سے کھا رہا تھا”. یہ تمھیں سوجھی کیا؟ عدّو نے زینت سے فرانسیسی میں پوچھا. اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایاندو کو فرانسیسی بھی نہیں آتی، وہ صرف ہسپانوی زبان جانتا تھا. ایاندو مزے لے لے کر کھانا کھا رہا تھا. اس کی عمر بے حد کم تھی.زیادہ سے زیادہ بائیس تیئیس برس کا ہوگا. اپنی کم امری چھپانے کے لیے اس نے داڑھی خوب بڑھا رکھی تھی. اس کی موجودی سے عدّو کو ایک بے نام سی خلش ہوئی تھی. وہ بڑی حد تک کم ہو گئی. شاید اس لیے کہ ایاندو معذور تھا. اس کی ایک ٹانگ توغائب تھی، ہاتھوں کی جلد پر بھی جابہ جا جلنے کے نشانات تھے.
زینت نے کہا. “میں بس آپ کو دیکھنے چلی آئی. پہرےدار نے فلیٹ کھول دیا تو ہم دونوں نے سوچا’ یہاں اپنے ہاتھہ سے چاۓ بنا کر پی جاۓ مگر آپ کا باورچی خانہ دیکھا تو تمام سامان موجود تھا لہٰذا کھانا پکانے کی سوجھی. بہت دنوں بعد پکایا ہے آج. ادھر ادھر کا واہیات کھانا کھاتے کھاتے طبعیت بیزار ہو چکی تھی اسی لیے خوب مسالے دار کھانا پکایا ہے.” وہ اب اردو میں باتیں کر رہی تھی.
عدّو نے کھاتے کھاتے ایک دم کہا.”اب تم برا مانو یا جو بھی کہو مگر میں یہ ضرور بتاؤں گا کہ میں نے جب تمھیں پیرس میں دیکھا تھا. اس وقت ایک قسم کی لاعلاج عورت سمجھہ لیا تھا. اب تمھیں اردو بولتے دیکھہ کراور یہ کھانا کھا کے محسوس ہو رہا ہے کہ تم میں اب بھی کچھہ………”

“عدّو بھائی! پلیز میرے بارے میں کوئی بات نہ کیجیے. مجھے سخت کوفت ہوتی ہے”. عدّو نے زینت کے چہرے پر بھرپور نظر ڈالی. زینت ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر بولی.” اصل میں پچھلے اٹھارہ یا انیس برسوں سے میرے دل میں آپ لوگوں کے خلاف جو غصّہ اور نفرت ہے، میں اسے ختم کرنے سے قاصر ہوں اس لیے صرف آج کی باتیں کیجیے. مجھے گزرے ہوئے کل یا آنے والے کل سے کوئی دلچسپی نہیں”. اس بار اس نے پھر انگریزی کا سہارا لیا.
عدّو چپ رہا پھر آہستہ سے بولا.”تو کیا تمہاری نفرت بدلے ہوئے حالات میں ختم ہونے کا امکان بھی نہیں ہے؟”
“یہ کہنا مشکل ہے مگر جب رات کے پچھلے پہر آپ ہوٹل کے بار میں تنہا بیٹھے تھے یا پھر بعد میں میرے کمرے میں اپنے متعلق باتیں کر رہے تھے تو مجھے آپ سے ایک طرح کی ہمدردی ہو گئی. میرا خیال تھا کہ آپ اب بھی وہی جاہ پرست’خر دماغ اور مغرور و عدیل احمد ہوں گے اور مجھے اسی حقارت و ذلت سے دیکھیں گے جو میرے ماں باپ کے لیے آپ کے گھر والوں کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی مگر مجھے ایسا لگا جیسے آپ نے دنیا کے دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر ڈالنا سیکھہ لیا ہے اسی لیے میں پارٹی میں آپ سے ملی اور یہاں بھی آگئی”.
“میں اپنے گھر والوں کیاور خود اپنے رویے کے سلسلے میں باقاعدہ معافی مانگنے کو تیار ہوں مگر تمھیں مجھہ پر ترس کھانے یا مجھہ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے. میرا خیال ہے’ میں بہت مطمئن اور خوش ہوں”. آخری جملہ کہتے ہوئےعدّو نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ کسی بھیانک ویرانے میں گنگنانے کی کوشش کر رہا ہو.
“خیر چھوڑیے یہ باتیں. ہاں آپ یہ گم راہ کب سے ہو گۓ’ آپ تو ہمیشہ سے بڑے نیک آدمی تھے’ آپ کے کمرے میں منتخب اور چیدہ چیدہ شرابوں کی الماری دیکھہ کر خیال آیا کہ اگر آپ کی آپا جان کو یہ معلوم ہو گیا تو کیا ہوگا؟”
عدّو نے جملہ بلکل نظرانداز کردیا. وہ ایاندو سے اشاروں اور ٹوٹے پھوٹے مخلوط جملوں میں کچھہ کہنے سننے کی کوشش کرنے لگا.
زینت بولی.”آپ کے باورچی خانے اور طعام خانے کا سلیقہ دیکھ کر میں سمجھی تھی کہ شاید آپ نے دوسری شادی کرلی ہے اور بیگم کہیں گئی ہوئی ہیں”.
“باورچی خانہ میرے ایک دوست نے سجایا ہے. وہ ایک جہازراں کمپنی سے متعلق ہے اور دنیا بھر میں معلوم نہیں کیا کیا الا بلا کھاتا پھرتا ہے. یہاں آ کر وہ اپنے ذائقے اور پسند کی چیزیں پکانے کی کوشش کرتا ہے. اس کا خیال یہ ہے کہ کھانے پکانے میں اسے مہارت تاتر حاصل ہےمگر میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس کے کمال سے کم سے کم فائدہ اٹھاؤں”
زینت کو ہنسی آ گئی. میں نے آج تک کوئی ایسا مسلمان نہیں دیکها جو اردو میں شاعری نہ کرتا ہو. اسی طرح دنیا بھر میں آج تک مجھے کوئی ایشیائی ایسا نہیں ملا جسے مغل کھانے پکانے میں کمال کا دعوا نہ ہو.”
عدّو نے زینت کے اصرار کے باوجود خود کافی بنائی. تینوں کافی پینے میں مشغول ہوگئے. زینت نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں مگر وہ عدّو کو بولنے کا زیادہ موقع دے رہی تھی. اپنے یا ایاندو کے بارے میں اس نے کچھہ نہیں بتایا پھر تینوں تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے.
“عدّو بھائی! ہم سب مجبور ہیں. ہم سب اپنے ماحول کی پیداوار ہیں’ اپنے اپنے ماں پاب اور خاندان کی قدروں کے اسیر ہیں. کسی کا کوئی قصور نہیں.”
عدّو اچھل پڑا.”کمال ہوگیا”.
زینت نے حیرت سے پوچھا.”کیا؟”
“یہی جو تم نے کہا. سچ بلکل یہی جملہ دو تین روز پہلے میرے ذہن میں بھی ابھرا تھا. میں تمھارے اور نوابو چچا کے بارے میں سوچ رہا تھا”.
“آیۓ باہر چلتے ہیں. پارک میں ٹہلیں گے.” زینت نے اپنے والد کا نام سنتے ہی گفتگو کا رخ موڑ دیا.
“وہ تینوں رات گئے تک پارک میں ٹہلتے رہے. کہر بہت گہرا تھا. وہ ایک دوسرے کی صورت بھی نہیں دیکھہ پا رہے تھے. چاروں طرف بلند قامت درخت ٹنڈ منڈ کھڑے تھے اور سوکھے سنہرے پتوں کا فرش بچھا تھا. پتوں پر ان کے قدم پڑنے سے کراہ سی نکلتی تھی’ عدّوکو اسرائیلی قید خانہ یاد آجاتا جہاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے فلسطینی کروٹیں بدلنے کی کوسش کرتے وقت کراہتے ہیں.”
عدّو کی چھٹی تھی. اس نے زینت کو فون کیا مگر وہ ہوٹل میں نہیں تھی. عدّو کو ذرا مایوسی ہوئی. تھوڑی دیر بعد وہ ہوٹل گیا اور وہاں زینت کے نام ایک پیغام چھوڑ آیا.” میں دگمول ہال جا رہا ہوں، وہاں ایک نئی جاپانی وائلن نواز کا کنسرٹ ہے. اگر تمہیں دلچسپی ہو تو آجاؤ.”
شام کے ابتدائی حصّے میں وہ ادھر ادھر گھومتا رہا. ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اس نے چاۓ پی پھر وگمورہال پہنچا.
وہاں زینت و دیکھہ کر وہ کھل اٹھا. زینت نے خوش دلی سے کہا “آپ کا پیغام مل گیا تھا’ شکریہ. میں ایک اور جگہ جا رہی تھی مگر وہاں کوفت کا امکان زیادہ تھا اس لیے ایاندو کو بھیج دیا”. عدّو کو ایاندو کے ذکرسے نہ معلوم کیوں دھکا سا لگا. زینت ایک معمولی ساڑی بندھے ہوئے تھی. اس نے بالوں کا بڑا سا جوڑا بنا کر گوتم بدھ کے مجسمے کی طرح سر پر جما رکھا تھا. تمام ثقافت پسند لوگوں کی نظریں اس کی طرف رہی تھیں. “عدّو نے ذرا جھنجھلاہٹ سے سوچا’ معلوم نہیں کیا بات ہے’ بلکل معمولی اور سادہ فیشن کے باوجود زینت اپنی شخصیت کو ایسا رخ دے دیتی ہے کہ سب کی نظریں اسی پر پڑنے لگتی ہیں.”.
شام زیادہ دلچسپ نہیں رہی کیونکہ عدّو کی تمام کوششوں کے باوجود زینت نے اپنے بارے میں کچھہ نہیں بتایا’ اس کے علاوہ وہ وائن پیتی رہی. کنسرٹ کے وقت وہ اس قدر پی چکی تھی کہ ہال میں اونگھتی ہی نہیں رہی بلکہ باقاعدہ سوتی رہی. عدّو نے دو تین باراسے دیکھا پھر خمنوشی سے سامنے دیکھنے لگا.وائلن نواز نے اپنی شخصیت موتزارٹ کے ارفع ترین آدرش میں سمو کر رکھہ دی تھی.
کنسرٹ کے بعدعدّو نے زینت کو ایک چینی ہوٹل میں کھانے کی دعوت دی مگر اس نے انکار کردیا کیونکہ دوسرے شہر کی ایک اچھی آرٹ گیلری میں اس کی نئی تصویروں کی نمائش شروع ہونے والی تھی. عدّو نے اسے باہر سڑک پر ایک گاڑی سے اتارا تو دیکھا کہ ایک جاپانی توئٹا کار اس کے انتظار میں کھڑی ہے. سڑک اچھی طرح روشن تھی پھر بھی وہ ڈرائیور کے متعلق پورا اندازہ نہیں لگا سکا. اس نے زینت کے ساتھہ کار تک جانا بھی گوارا نہیں کیا، وہیں سے اسے الوداع کہ کر وہ ہال کی پچھلی طرف والی سڑک پر آگیا’ یہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی.
دوسرے دن اتفاق سےعدّوکی چھٹی تھی. وہ ساوتھہ بینک گھومتا گھامتا آرٹ گیلری چلا گیا. وہاں اس نے رات والے ڈرائیور کو پوری روشنی میں دیکھا’ وہ گنپتی تھا. معلوم نہیں گنپتی نے اسے دیکھا یا نہیں مگر زینت نے عدّو سے خود ذکر کیا. گنپتی بڑا پرجوش انقلابی ہے. تیسری دنیا کے مسائل پر بہت ڈپٹ کر بولتا ہے. تمام قابل ذکر تہذیبی وادبی مجلسوں میں شرکت کرتا ہے. جنوبی مشرقی ایشیائی سوسائٹی کا سرگرم رکن ہے اور گارجین اور اسٹیٹس مین کے حلقوں میں لوگ اس کا خاصا ادب کرتے ہیں.”
عدّوخاموشی سے سنتا رہا. اپنی پیالی میں خواہ مخواہ چمچا ہلاتے ہوئے اور پیالی میں دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا.”تم ککب سے جانتی ہو اسے؟”
“یہیں ایک تصویری نمائش میں ملا تھا. دو ایک جاننے والوں کے ذریعے میرا اس سے تعارف ہوا. کیوں کیا آپ اسے جانتے ہیں؟”
عدّو نے کہا. “بہت اچھی طرح جانتا ہوں. یہ آرے میں تھا. میں ان دنوں وہاں نیا’ ڈی ایس پی ہو کر گیا تھا.”
“آپ ملے کیوں نہیں اس سے؟ اچھا کل میں آپ کو ملاؤں گی.” “نہیں میرا خیال ہے ملنے سے بہتر یہ ہے کہ تم سردست میرا ذکر کردینا. اگر وہ کچھہ گرم جوشی ظاہر کرے تو ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ورنہ سبکی کا ڈر ہے.” بات آئی گئی ہو گئی
کئی دن بعد زینت نے بتایا کہ گنپتی سے عدّو کا ذکر ہوا تھا. عدّو نے زینت کا چہرہ دیکھا اور سراپا سوال بن کر پوچھا.”پھر؟”
“وہ آپ کو ری ایکشنری’ ٹوڈی اور کیئریرسٹ کہ رہا تھا.”
عدّو نے مسکرا کرکہا. یہ الفاظ تو اس نے انٹرنیشنل پیمانے پراور عالمی تناظر میں استعمال کے ہیں ورنہ آرے میں اس نے مقامی بولی استعمال کی تھی یعنی کہ میں پاکستانی جاسوس ہوں اور مسلمان غدار ہوں.”
کیا مطلب! کچھہ اور بتائیے؟”
“پورا قصّہ یہ ہے کہ حکومت نے کچھہ جھگیوں کی صفائی کا حکم دیا تھا. میں نے حکم کی تکمیل کے لیے جھگی والوں کو نوٹس دیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر جگہ خالی کردیں ورنہ پولیس سب کو بے دخل کر دیگی. چھہ سات دن کچھہ نہیں ہوا پھر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ میں پولیس لے کر جاؤں اور جھگیوں کی صفائی شروع کردوں مگر اس وقت تک گنپتی آ چکا تھا’ یہ جن سنگھہ کا لیڈر تھا. اس کا باپ بھی مہا سبھا کا مقامی لیڈر تھا. ان لوگوں کو جھگی والے ایک روپیہ فی جھگی کے حساب سے روزانہ دیتے تھے. گنپتی کے ساتھیوں نے وہاں کہیں سے لا کر دو چار مورتیاں رکھہ دیں’ ایک سادھو ترشول لگا کر بیٹھہ گیا اور شہر میں افواہ اڑادی گئی کہ مسلمان ڈی ایس پی نے ایک مندر اکھاڑ پھینکا ہے. افواہ پر بہت زور کا فساد ہوا. میں نے وزیر داخلہ کو لکھا کہ وہ عدالتی تحقیقات کرائیں’ وہاں مندر کب تھا؟ اور نوٹس ختم ہونے کے کے دن ہی کیسے وجود میں آگیا؟ میں نے جن سنگھہ کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی جائزہ بھی بھیجا مگر وزیرداخلہ خود کمزور تھا اس کے بہت سے رشتےدار جن سنگھہ میں شامل تھے’ اسنے کوئی قدم نہیں اٹھایا پھر ڈپٹی کمشنر کا تو کچھہ نہیں بگڑا’ میرا ایک انتہائی گم نام سی جگہ تبادلہ کردیا گیا.ہندی اخبار سب گنپتی اور جن سنگھہ کے زیر اثر تھے’ انہوں نے یہ خبر شائع کی کہ میں پاکستانی جاسوس ہوں اور میرے گھر میں پاکستانی ریڈیو سنا جاتا ہے. میں نے غصّے میں ملازمت پر لات ماردی.”
سنتی رہی پھر بولی! تعجب ہے. یہاں تو یہ بہت بڑا ترقی پسند سمجھاجاتا ہے. مجھہ سے مسلمان عورتوں کی مظلومی وغیرہ کے بارے میں خاصی سمجھہ داری کی باتیں کرتا ہے. ذاتی طور پر میرا بہت ہی خیر خواہ ہے.”
“لڑکی کے تو سبھی خیر خواہ ہو جاتے ہیں.”
“آپ اتنے کٹر مسلمان کیوں ہوتے جا رہے ہیں. مجھے یاد ہے’ آپ تو بڑے سیکولر تھے.”
“اس سوال کے جواب میں میں تمھیں ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں. سر سید احمد بہت زبردست قوم پرست اور ہندو مسلم اتحاد کے شدید مبلغ تھے لیکن بعد میں وہ صرف مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنےلگے. اقبال ایک عظیم وطن دوست اور ہندو مسلم دوستی کے سرگرم علمبردار تھے مگر پھر وہ محض مسلمانوں کے ترجمان بن گئے. محمّدعلی جناح سے بڑا قوم پرست ان کے ساتھیوں میں کون تھا؟ ان کے تو سارے دوست انگریز اور ہندو تھے. مسلمانوں سے ان کے مراسم براۓ نام بھی نہیں تھے مگر بعد میں وہ بھی صرف مسلمانوں کے وکیل ہو گئے اور اس شدومد سے ہوئے کہ انہوں نے لوہے کے حصاروں کی طرح مضبوط کانگریسی قیادت کی چولیں ہلا کر رکھہ دیں. غلطی ایک آدمی سے ہو سکتی ہے. یہ تین اتنے عظیم اور عاقل ودانا لوگ ایک ہی غلطی کے کس طرح مرتکب ہو گئے؟ تم پچھلے سو برسوں کی ہندوستانی تاریخ کا تجزیہ کروگی تو مجھے مسلمان ہو جانے کا طعنہ نہیں دوگی؟”
زینت نے کہا.”بہرحال میں کسی کو ہندو، مسلم، سکھہ، عیسائی کی نظر سے نہیں دیکھتی. غور کیا جاۓ تو انسانوں میں سب سے بڑی تقسیم امیروغریب کی ہے. بنیادی طور پر میں اپنے رشتےداروں کے مقابلے میں ایک غریب ہندو سے زیادہ قریب ہوں. میرے تمام قریبی عزیز مال دار تھے’ انھوں نے مجھے اور میرے ماں باپ کو اچھوت سے بد تر بنا کررکھہ دیا تھا. جن لوگوں نے میری پڑھی لکھی ماں کو دیوانی بنایا’ وہ بڑے دین دار لوگ تھے. ہمارے ماموں جان نماز روزے کے کتنے پابند تھے’ بچپن سے آخر تک انھوں نےکبھی روزے قضا نہیں کیے مگر جب میرا بھائی احمد بیماری سے سسک رہا تھے تو سگے ماموں کی جیب سےدوا کے لیے دو روپے بھی نہ نکل سکے.”
میں نے جواب میں زیر بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں اور ان کے اسباب پرکچھہ گفتگو کی پھر کہا کہ”میں اتنی عمر میں صرف ایک نتیجے پر پہنچا ہوں’ وہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی عورت بے وقوف نہیں ہوتی. عورتوں کے اخذ کیے ہوئے نتیجے عموما صحیح اور مثبت ہوتے ہیں. مشکل یہ ہے کہ مرد حقیقت واضح طور پر تسلیم کرنے سے شرماتا ہے.”
“چلیے ایک بات تو آپ نے غیر اختلافی کہی”. زینت ہنسنے لگی. عدّو نے گھڑی پر نظر ڈالی اور جلدی سے کھڑا ہو گیا. دفتر کے وقت میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے.
زینت کے بارے میں بہ ظاہرعدّو بہت غیر جانب داری سےسوچتا تھا مگر وہ محسوس کرتا تھا کہ ان سوچوں کی تہ میں کچھہ اور بھی ہے مگر کیا؟ اس بارے میں اس نے کسی ذہنی توجیہہ وتشریح کی کوشش نہیں کی. وہ شاید اپنے آپ سے بھی ڈرتا تھا. کہیں اس کے تحت الشعور سے کچھہ اور برآمد نہ ہو. ویسے وہ اب اکیلے کہیں جانے کے بجاۓ یہ پسند کرنے لگا تھا کہ تقریبات اور تفریح میں اس کے ساتھہ کوئی اور بھی ہو. اس کا خیال تھا کہ اکیلے کسی محفل میں جانا اپنی سماجی ناکامی کا ڈھنڈھورا پیٹنے کے برابر ہے.
ایک ہی شخصیت کے دو چہروں کے مختلف احساسات میں مبتلا تھا. ژینیت میں ایک دوری تھی مگر زینت قریب تھی. ژینیت کا تصور کرتے ہی اسے ان جانے اندیشے گھیر لیتے مگر زینت کے خیال سے وہ ایک قسم کی طمانیت محسوس کرتا. زینت کے بارے میں اسے بہت کچھہ معلوم تھا مگر ژینیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی. یہ بھی بدلے ہوئے حالات ہی کا اثر تھا کہ اس نے ژینیت کے متعلق کوئی تفشیش کرنے کی کوشش نہیں کی ورنہ کسی بھی سراغ رساں ادارے کو فون کرکے وہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ژینیت کا سارا کچا چٹھا معلوم کر سکتا تھا مگر ژینیت کے لیے اس نے ایسا نہیں کیا. معلوم نہیں کیوں اسے ڈر تھا کہ بعض ایسی باتیں بھی معلوم ہو سکتی ہیں کہ اسے خواہ مخواہ افسوس اور رنج ہوگا.
دن کے وقت تصویری نمائش کے دوران اکثر اس کا اور زینت کا ساتھہ ہو جاتا. وہ والڈورف کے پائیں باغ میں دن کے کھانے کے وقت کولڈ سالڈ اور کافی وغیرہ سے شوق کرتے. اس کے بعد زینت اپنی نمائش میں چلی جاتی اور عدّو دفتر کی راہ لیتا.
وہ دفتر سے گیارہ بارہ بجے کے قریب اپنے فلیٹ پہنچتا تو زینت کو ٹیلی فون کرنے کا ارادہ کرتا مگر صرف سوچتا رہ جاتا. اسے کئی بار یہ معلوم کرنے کا خیال آیا کہ نمائش کے بعد زینت کہاں جاتی ہے مگر اسے خوف تھا کہ اگر زینت کو اس کے تجسس کا پتہ چل گیا تو وہ بہت برا مانےگی اور کیا پتہ’ اس سے پھر نہ ملے. فی الحال عدّو کے لیے یہی کافی تھا کہ زینت محض ایک جاننے والی کی حیثیت سے اس سے ملتی رہے. وہ دونوں ساؤتھہ بینک کی ادبی وتہذیبی ہماہمی پر خوب باتیں کرتے.
نمائش کے اختتام پر زینت عدّو کو کچھہ بتاۓ بغیر بوڈا پسٹ چلی گئی. وہاں بھی ایک چھوٹی نمائش کا اہتمام تھا. ایک سہہ پہر عدّو نے ایاندو کو ایک نشست پر لیٹے ہوئے کوئی ہسپانوی ناول پڑھتے دیکھا. ایاندو نے اشاروں اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے بتایا کہ ژینیت بوڈاپسٹ میں ہے اور وہاں سے کہیں اور جاۓ گی.
اس شام وہ خود کو بہت اکیلا اکیلا اداس اداس کر رہا تھا مگر اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش بھی کر رہا تھا کہ مجھےآخر زینت میں اتنی دلچسپی لینے کی کیا ضرورت ہے. میرا اور اس کا کیا تعلق ہے؟ میں کون ہوتا ہوں اس کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے والا؟
جمعے کی شام تھی چاروں طرف ہنگامہ سا تھا. بازاروں میں کرسمس کی روشنیاں جگ مگا رہی تھیں. عدّو کی چھٹی تھی. وہ بے حد تنہا تھا. کلب یا تھیٹر جانے کے بجاۓ اس نے اپنے فلیٹ جا کر کچھہ لکھنے پڑھنے کا فیصلہ کیا.
فلیٹ میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ ہر طرف سوٹ کیس اور تھیلے پڑے ہیں. کھانے کے کمرے سے باتوں کی آواز آرہی تھی. وہ ایک دم سن ہو کر رہ گیا. آپاجان کینیڈا سے وطن واپس جاتے ہوئے لندن آگئی تھیں. آپاجان وہ اپنی اماں کو کہتا تھا. اس کی اماں اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں اس لیے سب انھیں آپاجان کہتے تھے. سب سے سن سن کر انکی اولاد بھی انھیں آپاجان کہنے لگی. چوکی دار کوعدّو نے ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اس کے مہمانوں کے لیے فلیٹ کھول دیا کرے. اس طریقے کا نقصان اسے آج معلوم ہوا. اسے یقین تھا کہ آپاجان نے آتے ہی ایک حسب عادت ایک ایک کونہ ٹٹولا ہوگا. اس طرح شرابوں کی الماری بھی ان سے پوشیدہ نہیں رہی ہوگی. اس کے فلیٹ میں کوئی چیز مقفل نہیں رہتی تھی.
وہ جھپٹ کر آپاجان کے گلے لگ گیا. ماں نے بولنا شروع کردیا’ معلوم ہوتا تھا کہ باتوں کا سیلاب آگیا ہے. آپاجان کے ساتھہ عدّو کے بڑے سالے نور میاں اور بڑی بہن کا لڑکا مسعود بھی تھا. وہ دونوں بیچ بیچ میں بولتے جاتے اور آپاجان کے نامکمل جملوں کی تکمیل کرتے.
آپاجان ٹھسے سے صوفے پرآلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں. عدّو بھی اپنی کرسی قریب گھیسٹ لایا تھا. آپاجان کی باتوں کا ریلا ذرا تھما تو عدّو نے پوچھا.”آپ نے نہ ٹیلی فون کیا’ نہ خط لکھا. اطلاع کے بغیر کیسے آگئیں؟”
“اے بیٹا! خدیجہ نے تمھ دو تین بار ٹیلی فون کیا. تم نہ گھرملے نہ دفتر. اور خط تو میں نے خود تم کو لکھا تھا کہ واپسی میں لندن ضرور رکوں گی. تم کو ائیرپورٹ پر نہ دیکھہ کر میرا دل دھک سے رہ گیا تھا کہ خدانہ خواستہ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے. وہ تو کہوں نور میں پہنچ گئے تھے ورنہ مسعود کو ساتھہ لیے کہاں کہاں بھٹکتی پھرتی.”
عدّو ذرا چکرا کے بولا.”نہیں آپاجان! مجھے ذرا بھی معلوم نہیں تھا آپ کا پروگرام. میں تو سمجھہ رہا تھا’ آپ مہینے کے آخرسے پہلے ہی کینیڈا سے چلیں گی ہی نہیں.”
آپاجان نے اسکی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اچانک پوچھا. “اور یہ زینت یہاں کیا کرتی ہے؟”
“معلوم نہیں. بس یہی پینٹنگ وغیرہ کرتی ہے یعنی تصویریں بناتی ہے”.عدّو نہ انتہائی بے پرواہی سے جواب دیا.
نورمیاں اور آپاجان کو یقین ہو گیا کہ زینت کا وجود عدّو کے لیے ہمیشہ کی طرح آج تک محض تام چینی کے چھدرے پیالے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا. پھر بھی آپاجان بولیں.”میرا مطلب ہے کہ تمھارے فلیٹ میں کیا کر رہی تھی وہ؟” ان کا لہجہ استغاثے کے وکیل کی جرح جیسا تھا.
عدّو نے کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں کی.”وہ تو کئی بار یہاں آچکی ہے.اس کی تصویروں کی نمائش پر ہمارے اخبار میں تبصرہ ہوا تھا’ اسی سلسلے میں وہ مجھہ سے بات کرنے آئی تھی. اسی نے مجھے پہچان لیا پھر بہت دنوں بعد ایک بار اس نے یہاں آکر کھانا بھی پکایا.”
ماں کو ایک طرح کی تسلی ہو گئی. نور میاں مدھم مدھم نظر آنے لگے پھر بھی آپاجان نے بےجھجک دو ٹوک کہا. “بیٹا! وہ شریفوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے. خبردار جو تم نے اسے ذرا بھی منہ لگایا. ویسے بھی یہ چھوٹے گھر والے ہمیشہ کے فسادی ہیں.” نوابو چچا کے گھر والے چھوٹے گھر والے کہلاتے تھے.
اور کوئی موقع ہوتا تو عدّو شاید کچھہ بحث کرتا مگر نور میاں کے سامنے اس نے یہ ذکر ختم کردینا ہی مناسب سمجھا. خیرچھوڑیے. یہ بتائیے کہ منجھلے بھائی اب کیسے ہیں؟ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہے. انہیں دیکھنے جانے کے خیال سے.”
“اب الله کا شکر ہے’ اچھے ہیں. وہ تو کہو’ جان بچ گئی”. آپاجان کا دھیان بٹ گیا.
خدیجہ عدّو کی منجھلی بہن تھی’ اس کے شوہر پر دل کا دورہ پڑا تھا. اسی سلسلے میں عدّو کی اماں مونڑیال گئی تھیں. ان کا کہنا صحیح تھا کہ خدیجہ نے کئی بارٹیلی فون کیا مگر عدّو ملا ہی نہیں.
عدّو کی سمجھ میں بہت سی باتیں آرہی تھیں. مثلآ یہی کہ زینت اسے کچھہ بتاۓ بغیر کیوں چلی گئی’ آپاجان اچانک یہاں کیوں آپہنچیں اور سعید کے بھائی نور میاں آپاجان کی مصاحبت میں کیوں ہیں.
نور میاں آپاجان سے اس طرح گپ شپ کر رہے تھےکہ عدّو کو بارہ بنکی ردولی اورسترکھہ کے وہ سب اعزا یاد آگئے جو پان چبا چبا کر تمام رشتےداروں کے بخیے ادھیڑتے اور خاندانی جھگڑوں پر سیر حاصل تبصرے کرتے. وہ عام طورپرغیبت میں غضب کی مہارت رکھتے تھے. اس طرح کے لوگ تمام تقریبوں کے انتظامات خود بہ خود اپنے ذمے لے لیتے. شادی ہو یا غمی’ برات آرہی ہو یا جنازہ جا رہا ہو’ دولھادلھن سے ایجاب و قبول کرایا جارہا ہو یا قبر میں میت اتری جا رہی ہو. یہ لوگ کہے سنے بغیر منتظم بن جاتے تھے. ایسے لوگ لڑنے جھگڑنے اور طعن و تشنیع کی برچھیاں چلانےمیں بھی آگے آگے رہتے اور صلح و صفائی کی کوششوں میں بھی پیش پیش.
نور میاں جیسوں کے حلیے بدل چکے ہیں مگر ایک طبقے کی حیثیت سے وہ آج بھی ہر جگہ زندہ اور مصروف عمل ہیں. عدّو کے یہ سالے صاحب ہندوستان میں شیعہ کالج میں کیمیا کے لیکچرر تھے. آج کل ویمبلے میں ایک کیش اینڈ کیری اسٹور اور حلال میٹ کی دکان کے مالک تھے. یہ ہمیشہ ہر خاندانی جھگڑے کا مرکزی کردار ہوتے تھے’ اکثر جھگڑوں میں فساد کی جڑ موصوف ہی کی شخصیت ہوتی تھی. لگائی بجھائی اور فضول باتیں بکنے میں
انہیں کمال حاصل تھا. اس وقت بھی تھری پیس سوٹ پہنے وہ اس طرح دربارداری میں مصروف تھے گویا ساؤتھمپٹن روبھی محلہ اشراف یا قاضی گڑھی کا ایک حصّہ ہو’ ان کے سر پربالوں کا جنگل بھی ہمیشہ کی طرح اگا ہوا تھامگر اب بال بڑی محنت سے رنگے ہوئے تھے اور خوب چمک رہے تھے مگر انکی چاکلیٹی رنگت’ گول گول چہرے اور عبرت ناک توند کی وجہ سے انھیں کسی چکن کری ہاؤس کے مالک کے سوا کچھہ نہیں سمجھا جا سکتا تھا. انھیں عدّو کے بارے میں خاصی معلومات حاصل تھیں. خود عدّوکو حال میں اپنی ایک بہن کے خط سے پتہ چلا تھاکہ”نور میاں بھی تو لندن میںرہتے ہیں”.نور میاں اور آپاجان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے خاندان کے تمام افراد ترک وطن کرکے انگلستان یا کینیڈا میں بس گئے ہوں. نور میاں باتیں کرتے کرتے نہایت اطمینان سے سگریٹ کی راکھہ قالین پر گراتے رہتے. ایک بار مسعود نے راکھہ دان کی طرف اشارہ کیا تو انھیں کچھہ احساس ہوا اور وہ چاۓ کی پیالی یا طشتری ایش ٹرے کے طور پر استعمال کرنے لگے.
ایک ہفتے تک نور میاں آپاجان کو دور اور قریب کے رشتے داروں سے ملانے لے جاتے رہے. آپاجان اورعدّو کو فرصت سے بیٹھنے کاموقع کم ہی ملا حالاں کہ عدّو نے کینیڈا جانے کے لیے جو چھٹی لی تھی’ وہ آپاجان کے قیام کی وجہ سے لندن ہی میں گزاری.
نور میاں کی ایک لڑکی حمیرہ تھی. اسے بھی مصوری کا شوق تھا. اس نے ہیورڈ گیلری میں ژینیت کی تصویری نمائش دیکھی تھی اور بہت متاثر ہوئی تھی. ایک تصویر کا کوری کےعرس کی بھی تھی. اس میں درگاہ کے راستے میں پڑے ہوئے فاقہ کش بچے دکھاۓ گئے تھے. کاکوری کا نام حمیرہ نے اپنے گھر میں سنا تھا اس لیے زینت سے مل کر اس سلسلے میں کچھہ جانناچاہا. زینت دوسرے لوگوں سے گھری ہوئی تھی. اس نے حمیرہ کو ٹال دیا.
بعد میں حمیرہ نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا. نور میاں کو مصوری وغیرہ کا شعور تو خیر کیا ہوتا مگر کاکوری کا نام سن کرانھیں بھی اشتیاق ہوا’ وہ وہاں گئے اور زینت کو انھوں نے پہچان لیا. زینت نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا بھی نہیں، بس پھر کیا تھا. نور میاں نے زینت کے بارے میں بہت کچھہ معلوم کرلیا. اس کی عدّو سے ملاقاتوں کا حال بھی انھیں کسی نہ کسی طرح معلوم ہو گیا. اس کا ذکر انھوں نے فورا آپاجان کے نام ایک خط میں کرنا ضروری سمجھا. آپاجان اپنے داماد کی عیادت کے لیے کینیڈا میں تھیں. نور میاں کا خط ملتے ہی انھوں نے مونٹریال میں اپنے قیام مختصر کردیا اور پہلی فرصت میں لندن پہنچ گئیں.
نور میاں کی بہن سعیدہ عدّو کو کھڈ تو چھوڑ کر چلی گئی تھی. عدّو نے بھی پلٹ کر نہ پوچھا. عدّوکے والد نے اسے میاں بیوی کا معاملہ قرار دے دیا اور کوئی دلچسپی نہیں لی. سعیدہ کے گھر والے آپاجان ہی پر انحصار کیے بیٹھے رہے. اس کا خیال تھا کہ آپاجان ڈانٹ ڈپٹ کرعدّو کوآمادہ کرلیں گی کہ وہ سعیدہ کو لے آۓ. عدّو کا کہنا تھا’ نہ میں نے بیوی سے کہا تھاکہ جاؤ’ نہ یہ کہوں گا کہ آجاؤ. وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی ہے، میں کیوں اسے ہاتھہ جوڑ کر منانے جاؤں.
آپاجان نے اس جملے کی معقولیت ہمیشہ تسلیم کی تھی. انھیں بھی سعیدہ پر غصّہ تھا مگر دوسری طرف وہ اس امر سے بھی ڈرتی تھیں کہ اس گھرانے میں جو بات اب تک نہیں ہوئی تھی’ کہیں وہ نہ ہو جاۓ. ان کا مطلب طلاق سے تھا. انہوں نے عدّو سے کہ دیا تھا کہ “میرے جیتے جی طلاق ولاق کی لعنت اس گھرمیں داخل نہیں ہوگی.” اس بات پرگھر میں آۓ دن چخ چخ رہنے لگی توعدّو تانگ آ کر ملک سے بھاگ کھڑا ہوا.
لیکن نور میاں کی وجہ سے اب وہ یہاں بھی اپنی ماں کی چکر میں پھنس گیا تھا. نور میاں آپاجان کے ساتھہ ساۓ کی طرح اس لیے لگے ہوئے تھے کہ عدّو سے کچھہ کہیں. امریکا کی سیر کے افسانے لوگوں نے بڑھا چڑھا کر سعیدہ اور اس کے گھر والوں تک پنچاۓ. نور میں کو بھی لندن کے صحافیوں کی حیثیت کا تھوڑا بہت اندازہ تھا. اس وجہ سے عدّو کی بیوی سعیدہ شاید اسی نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ اس کا شوہر خبطی نہیں تھا. وہ خود جب چاہتی عدّو کے پاس آ سکتیتھی مگر اس کے لیے بھی یہ بےغیرتی تھی کہ وہ یوں بے بلاۓ منہ اٹھاۓ پہنچ جاۓ.ادھرعدّو کی بہن ایک بار کہہ چکی تھی کہ “میرا بھیا سعیدہ کو لینے کیوں جاۓ’ سعیدہ جب تک اپنا تھوکا نہ چاٹے’ ہماری جوتی کو کیا پڑی ہے کہ اس کے ناز اٹھائیں اور بھلا عدّو کو بیویوں کی کونسی کمی ہے. خوش رہے میرا بھائی’ گلی گلی بھر جائی”.
آپاجان کو بھی یہ احساس ہو گیا تھا کہ سعیدہ یا اس کے گھر والوں کے لیے کیا مشکل ہے، اس لیے اب وہ چاہتی تھیں کہ عدّوبراۓ نام سہی’ اپنے لڑکے کو دیکھنےکے بہانے سہی، دو سطریں لکھہ دے. یہی سبب تھا کہ عدّو کی زینت سے دوستی کی بھنک کان میں پڑتے ہی آپاجان کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے لندن آئی تھیں.
واپسی سے ایک دن پہلے آپاجان حمیرہ’ مسعود اور نورمیاں سے باتیں کر رہی تھیں. عدّو بھی آ گیا. آپاجان کسی تمہید کے بغیربولیں.”عدّو بیٹے! یہ حمیرہ تو زینت کی بڑی تعریف کرتی ہے؟” یہ گول مول طریقے سے گفتگو کسی خاص منزل تک لے جانے کی کوشش تھی. آپاجان کی گفتگو شطرنج کے کھیل کی طرح ہوتی تھی. شطرنج میں ایک دو مہرے غیر ضروری طور پر ادھر ادھر کرنے سے مخالف کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ فرزیں یا رخ کے سہارے کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھانے کی مہلت مل جاۓ. اس طرزگفتگو میں آپاجان کو مہارت حاصل تھی مگر ان کا بھول پن یہ تھا کہ وہ یہ کھیل اپنے بیٹے ہی سے کھیلنے کی کوشش کر رہی تھیں.
عدّو نے ابتدائی عمر سے یہ طور طریقے اچھی طرح سمجھہ لیے تھے. اس نے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا.”ارےگولی ماریے زینت کو. یہ بتائیے کہ آپ واپس کب آئیں گی؟ صبح سویرے آپ کی پرواز ہے. وقت سے بہت پہلے ہوائی اڈے پہنچنا ہے.”
نور میاں بیچ میں کود پڑے.”ایک حمیرہ کا کیا ذکر’ تعجب تو مجھے بھی ہوتا ہے زینت کو دیکھہ کر پوری یورپین لگتی ہے. نوابوچچا کے گھر میں رنگ تو سب کا گورا تھا”. نور میاں کے لہجے میں رشک کا جذبہ بھی تھا کیوں کہ ان کی دونوں لڑکیاں اچھی خاصی کالی تھیں اور رنگ روپ کے بارے میں نور میاں اسی افسردہ مفروضے کا شکار تھے کہ گوری چمڑی خوب صورتی کی دلیل ہوتی ہے.
“ارے توبہ کرو. ایسا بھی کیا رنگ. گورا آدمی بلکل پھیکا شلجم لگتا ہے. مجھے تو سب سے زیادہ برا احمد لگتا تھا. کیسا لال لال تھا، بلکل بندر کے موافق.” آپا جان گوری رنگت کی برائی میں مصروف ہوگئیں. نورمیاں کو قرار سا آگیا مگر آپا جان نے پھر گفتگو کو ایک غیر متوقع موڑ دے دیا. “اے ہاں عدّو میاں! اب تمھاری تن خواہ کیا ہے؟”
عدّو گڑبڑا گیا. وہ اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا مگر نور میاں’ حمیرہ اور مسعود کے سامنے یہ واہیات ذکر نبھانا مشکل تھا. وہ ذراسنبھل کر بولا.”آپا جان! یہاں تن خواہ وغیرہ سے کچھہ نہیں ہوتا. مہنگائی اتنی ہے کہ کیا کیا جاۓ.اب اس کا فلیٹ کا کرایہ ہی پانچ سو پونڈ مہینہ ہے”.
“پانچ سو پونڈ؟” آپاجان تقریبا چلّ اٹھیں. عدّو کو ہنسی آگئی.
حمیرہ بولی.”پانچ سو پونڈ دے کر تو ایک مکان خرید سکتے ہیں.”
“مگر وہ ایسے اچھے اور مرکزی مقام پر تھوڑی ملے گا.” مسعود نے انگریزی میں کہا.
نور میاں نے اندھیرے میں تیر چلایا.”لندن کے کسی اخبار میں بیس ہزار سے کم تن خواہ ہوتی ہی نہیں.”
عدّو کو بہت غصّہ آرہا تھامگر وہ صرف اپنی ماں کی وجہ سے ضبط کر رہا تھا. آپاجان کو اس کے چہرے سے کچھہ اندازہ ہوگیا’ انہوں نے بات بدلی.”اب تم گھر کب آؤگے؟ رمضان کے بعد آجاؤ تو اچھا ہے. ظہور میاں کے بیٹے کی شادی بھی ہے”.
عدّو کچھہ نہیں بولا. وہ آپاجان کا پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ بے وجہ دیکھتا رہا. اس نے دیکھا کہ نور میاں نے سگریٹ کی راکھہ پھر فلیٹ کے بڑھیا قالین پرگرا دی ہے اور بڑی چالاکی سے اسے جوتے کی نوک سے صوفے کے نیچے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں. گویا کسی نے دیکھا نہ ہو. رااکھہ کا گل ان کے جوتے کی نوک سے ایسا بکھرا کہ اس کا صوفے کے نیچے چھپانا مشکل ہو گیا.نور میاں نے اپنی ٹانگ اپنے حسابوں بے پروائی سے ہلاتے ہلاتے بکھری ہوئی راکھہ رگڑ دی. اس کا دھبہ بھی قالین کے گل بوٹوں کا جزو بن گیا تھا. نورمیاں نے اطمینان کی سانس لی مگر اس کےسان گمان میں بھی نہ تھا کہ عدّو نے جھنجلاہٹ میں یہ سب کچھہ دیکھہ لیا ہے. اس سے پہلے نور میاں فلیٹ کے ٹوائلٹ میں قدم رنجہ فرما چکے تھے اور وہاں بھی اپنی بچپن کی عادتوں کے ثبوت چھوڑ آۓ تھے. عدّو نے کئی بار خاموشی سے فلیٹ اورٹوائلٹ صاف کیا تھا تاکہ صفائی کرنے والی عورت یہ قصباتی طریقے دیکھہ کر اپنے جاننے والوں میں انھیں بھی پیکی جوکس کے طور پر استعمال نہ کرسکے.
معلوم نہیں’ کہاں کہاں کی بات کرتے ہوئے آپا جان نے کہا. “تمھارا کفیل کو بھی دیکھنے کا دل نہیں نہیں چاہتا؟”
عدّو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا. وہ چونکا. اس نے سوچا کہ کچھہ کہے مگر اس کی نظر نور میاں پرپڑگئی. وہ جلدی سے کھڑاہوگیا. “اٹھیے. وقت ہو گیا ہے. اب ٹریفک کم ہو گیا ہو گا”.
نور میاں آپا جان کو کسی رشتےدار کے ہاں لے جانے آۓ تھے سب لوگ چلنے کے لیے تیار ہو گئے. عدّو نے حسب معمول جانے سے انکار کردیا. وہ نور میاں کی ساری سیاست سمجھہ چکا تھا اور اب اس سے ان کی صورت سے بیزاری ہو رہی تھی.
دوسری صبح عدّو آپاجان کو ہوائی اڈے پر رخصت کرنے چلا. اس نے پلٹ کر نورمیاں پر نظر بھی نہیں ڈالی. نور میاں مسلمانوں کی ایک جماعت کے رہنما سے یہ معلوم کرکے مسرت کا اظہار کر رہے تھے کہ خلا باز نیل آرم اسٹرانگ مسلمان ہو گیا ہے.
نور میاں کی سرگرمیوں سے بڑا نقصان ہوا ہے. عدّو کے شب و روز میں اچھا خاصہ خلل پڑ گیا ہے. پہلے وہ سکون سے گمنامی کے دن گزار رہا تھامگر اب بہت رشتےداروں کو اس کا علم ہو گیا. طرح طرح کے لوگ اسے وقت بے وقت فون کرنے لگے. عجیب عجیب تقریبوں کے دعوت نامے ملنے لگے. کوئی منیر بھائی تھے انکے لڑکے کا عقیقہ تھا. کوئی مجاہد بھائی تھے’ انہوں نے رجب کے کونڈوں میں بلایا تھا اور ایک جبار ماموں تھے، ان کے گھر ختم خواجگاں تھا اور اپنے ریاض چچا کے گھر گیارھویں کے فاتحہ میں شرکت نہ کرنا تقریبآ جرم تھا. پھر عاشور انکل تو عدّو کے لڑکپن کے ساتھی تھے انہوں نے مجلس عزا میں شرکت کا حکم دیا تھا’ اسے ٹالنا گویا باپ کاحکم ٹالنے کے برابر تھا. ان سب سےالگ اردو انجمنیں مشاعروں کے دعوت نامے بھیجتیں اور چندے کا تقاضا بھی کرتیں. ایک خط ڈاکٹر مہرا کا ملا’ وہ عدّو کی ماں کو آپاجان کہتے تھے’ انہوں نے عدّو کو لکھا کے تم میرے مریض بن جاؤ’ میرا اپنا نرسنگ ہوم ہے، اس میں تمھارے ساتھہ خاص رعایت برتی جاۓ گی. اس کے بعد اسے ایک پرچہ ملا. بہت خوبصورت خط میں لکھا تھا.
“مدینے شریف کے حاجیوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قیامت قریب ہیں. مسلمانوں کو نماز روزے کی پابندی کرنی چاہیے. جو شخص اس طرح کے پرچے لکھ کر تقسیم کرے گا’ اس کے کاروبار میں برکت ہوگی ورنہ جلد ہی اسے کوئی بری خبر سننی پڑےگی”.
کوئی ایک ڈیڑھ مہینے ہی میں اسے تمام رشتےداروں کی رقابتوں اور جھگڑوں کے بارے میں اچھی خاصی واقفیت ہو گئی. اسے یہ سوچ سوچ کر افسوس ہوتا رہا کہ یہ لوگ آج بھی اپنے اپنے مسائل میں اسی طرح الجھے ہوئے ہیں جیسے زمیں داری کے زمانے میں تھے. زمانہ بڑھتا گیا اور برابر ترقی پذیر ہے مگر ان کے ذہنی افق اسی طرح محدود ہیں.
حمیرہ بھی عدّو کے نظام الاوقات سے خوب آگاہ ہوگئی. وہ ہمیشہ ایسے وقت آتی جب عدّو گھرہوتا’ وہ اس کے لیے چاۓ بناتی یا بہت زیادہ ترقی پسند بننے کی غرض سے عدّوکے لیے مناسب مقدار میں سوڈا، ٹانک یا پانی ملا کر شراب کے جرعے تیار کرتی اور برمنگھم اور ایسٹ انڈ کے مزدورطبقے کے لہجے میں انگریزی بول کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ یہاں کے سماج میں رچی بسی ہوئی ہے مگر جب وہ مزدور طبقے کی بلائی می شٹ قسم کے لفظ استعمال کرتی تو عدّو اسے ضرور ٹوکتا.
ایک رات عدّوکے دو تین جاننے والےآ گئے’ ان کا تعلق میڈرڈ اور بیروت کی یونی ورسٹیوں سے تھا، وہ انگریزی ادب پر عربی اثرات کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے. حمیرہ اس موضوع میں کسی طرح حصّہ نہیں لے پا رہی تھی. یہ کمی اس نے خود بھی بری طرح محسوس کی اور اسے یہ اندازہ بھی ہوا کہ عدّو بھی اسکی کم زوری محسوس کر رہا ہے. وہ اسی فکر میں غلطاں تھی کہ اس کے ہاتھہ سے شیری کی بوتل گرپڑی. قالین خراب ہو گیا، اسے اپنے آپ پر غصّہ آیا. وہ ویسٹ انڈ کی ٹھیٹ پھکڑ عورتوں کی طرح بے ساختہ چلائی. “آؤ. فاکٹ.”
عدّو کے مہمان تعجب سے دیکھنے لگے پھر مسکرا کر چپ ہو گئے. عدّو شرم اور غصّے سے پانی پانی ہو گیا.
بعد میں عدّو نے حمیرہ سے صاف کہہ دیا.”اگر تمھیں یہی بازاری پن دکھانا ہے تو اب یہاں نہ آنا”.
دوسرے دن سہہ پہر کوایک کتاب پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھہ لگ گئی. کوئی سات بجے وہ آگ بجھانے والے انجنوں کی آواز سے چونکا. اس نے کھڑکی کھول کرباہر سڑک کی طرف دیکھا. کسی دکان کے سامنے خالی ڈبوں اور اخباروں کے ڈھیر سے دھواں اٹھہ رہا تھا’ ایک آدھ شعلہ بھی لپک جاتا. ایک انجن آگ بجھانے میں تقریبآ کامیاب ہو چکا تھا اور دوسرا انجن سڑک کے دوسری طرف اس طرح کھڑا تھا کہ راستہ تقریبآ بند ہو ہوگیا تھا. عدّو یہ تماشا دیکھہ رہا تھا کہ اس نے نور میاں کی سرمئی مرسڈیز گاڑی دیکھی. گاڑی پولیس والوں اور آگ والوں کے احتجاج کی پروا کیے بغیر غیر مسلط طریقے سے مڑتی مڑاتی آرہی تھی. گاڑی اس کے کورٹ کے آگے آ کر رکی’ اس میں سے حمیرہ نکلی. وہ لمبی قمیض اور چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوئے تھی’ گلے میں دپٹا بھی تھا. وہ کسی اچھے گھرانے کی بہو لگ رہی تھی تا ہم اس کے بال اسی طرح کٹے ہوئے تھے’ انہیں دیکھہ کر عدّو کو کروڑی مل اسپتال کی اناؤں اور دائیوں کا خیال آتا تھا.
پچھلی رات عدّو نے بری طرح حمیرہ کو ڈانٹا تھا، اس کا خیال تھا کہ اب حمیرہ ادھر کا رخ نہیں کریگی. نور میاں بھی تھے. عدّو سوچنے لگا کہ نور میاں اپنی بیٹی کو یہاں پہنچانے کیوں آۓ ہیں؟ اب ان کا کیا کھیل ہے؟
حمیرہ فلیٹ میں دخول ہوئی.”میں کل رات کی بے ہودگیپر آپ سے معافی مانگنےآئی ہوں.”
“میرا کیا ہے’ معافی تمھیں میرے مہمانوں سے مانگنا چاہیے تھا.”
عدّو سمجھاتے ہوئے بولا.”اگر تم اچھے اخبار پڑھو اچھی کتابیں پڑھو یا پڑھے لکھے لوگوں میں بیٹھو تو زبان خود بہ خود ٹھیک ہو جائےگی .”
“عدّو بھائی! یہی تو مصیبت ہے. مجھے نہ پڑھے لکھوں کا ساتھہ ملتا ہے’ نہ خود کچھہ پڑھنے لکھنے کا موقع ہاتھہ آتا ہے”.
“کیوں؟”. عدّو نے تعجب سے پوچھا.
“ڈیڈی کو منافع خوری اور پیسہ جوڑنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے. ہر وقت پیسہ پیسہ’ اور اپنی اس حرص کا رشتہ وہ مذہب سے جوڑتے رہتے ہیں”.
“ان کی لالچ کا تم پر کیا اثر پڑتا ہے؟”
“بہت پڑتا ہے. ان کی لالچ کے سبب ہم ان کے کیش اینڈ کیری اسٹور میں کام کرتے ہیں. ہمیں تھینک یو کے بجاۓ”تھا اور گڈلآرڈ کے بجاۓ بلائی می کہنا پڑتا ہے. گاہک ہمیں اپنے ہی قبیل کا سمجھہ کر خوش ہوتے اور فحش مذاق کرتے ہیں. اس طرح بکری بڑھتی ہے اور ڈیڈی کا بینک بیلنس بڑھتا ہے.”
عدّو کو نور میاں کی ذہنیت پر کوئی حیرت نہیں ہوئی. اس کے تقریبآ سبھی اعزا ہر وقت پیسہ بٹورنے اور عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے میں مشغول رہتے تھے. اسے یہی غنیمت معلوم ہوا کہ حمیرہ کو مصوری کا شوق ہے. وہ آرٹ اسکول بھی جاتی تھی اور جدید مصوری پر دو تین رسالے بھی پڑھتی تھی. عدّو نے بات ٹالتے ہوئے کہا.”مگر میں تمھارا بھائی کہاں سے ہو گیا؟ اگر رشتہ دیکھو تو میں تمھارا پھوپھا ہوا، سعیدہ تمھاری پھوپھی ہیں.”
“مجھے تو آپ بلکل پھوپھا نہیں لگتے. ویسے بھی آپ سگے پھوپھا تو نہیں ہیں.سعیدہ پھوپھی ڈیڈی کی سگی بہن کہاں ہیں. ہاں اصلی پھوپھا تو نجیب پھوپھا ہوئے جو ہر طرح اس رشتے کے تصور پر بھی پورے اترتے ہیں. آپ تو زیادہ سے زیادہ بڑے بھائی لگتے ہیں.”
عدّو کو ہنسی آگئی. “میں تم سے کم از کم بیس سال بڑا ہوں.”
“ہر گز نہیں. مجھے معلوم ہے”. حمیرہ نے فورا بات کاٹی.
“کیا معلوم ہے؟”
“یہی کہ آپ کی عمرابھی پورے چالیس سال بھی نہیں ہے. کل ہی ڈیڈی باتیں کر رہے تھے. انہوں نے نضحات النسیم کھول کر آپ کی تاریخ پیدائش ڈھونڈ نکالی.”
عدّو نے تعجب سے پوچھا.”تمھارے ہاں نضحات النسیم ہے؟ کبھی موقع ملے تو ذرا مجھے بھی دکھانا.” نضحات النسیم عدّو کے گھرانے کا شجرہ تھا، اس میں خاندان کے سب لوگوں کی پیدائش اوروفات کی تاریخیں درج کی جاتی تھیں. ہر پانچ چھہ برس بعد مناسب ترمیم اور اضافے کے ساتھہ نیا ایڈیشن شائع ہوتا تھا. تھوڑی دائر خاموشی رہی.
“عدّو بھائی. آپ مجھے بچا لیجیے”. حمیرہ نے آہستہ سے کہا.
“کیا مطلب؟ کس سے بچالوں اور کس طرح؟”
“کوئی لڑکا پیسے والے گھرانے کا ہے. اسے یہاں کی شہریت درکار ہے. وہ مجھہ سے شادی کر کے یہاں کا شہری بننا چاہتا ہے. ڈیڈی اور ممی آنکھیں بینڈ کر کے تیار نظر آتے ہیں مگر مجھے اس سودے بازی کے خیال ہی سے نفرت ہو جاتی ہے.”
“مگر میں تمہیں کیسے بچالوں؟ نور میاں سے میرے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے اور اب تو وہ مجھہ سے اور بھی خفا ہوں گے.”
“نہیں ایسا نہیں ہے. اب تو وہ کبھی کبھی آپ کی تعریف کرتے ہیں. ہر وقت سعیدہ پھوپھی ہی کو برا کہتے ہیں. آپ بس یہ ثابت کر دیجیے کہ آپ مجھے پسند کرتے ہیں.”
اس میں ثابت کیا کرنا. پسند تو میں تمھیں بہت کرتا ہوں’ تمھاری تمام بے وقوفیوں کے باوجود.”
“نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ……….”وہ ایک ثانیے کور کی پھر اٹھہ کر اچانک عدّو کے سینے سے لگ گئی اور سسکنے لگی.
عدّو بولا. ارے…..رے رے. یہ کیا کر رہی ہو’ دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا؟”
عدّو نے اسے سینے سے الگ کیا اور ڈانٹ کر بولا.” جاؤمنہ دھو کر آؤ.”
حمیرہ منہ دھو کر آئی مگر اس طرح کہ اس کے کٹے ہوئے بال دپٹے میں اچھی طرح چھپے ہوئے تھے. عدّو نے کہا.”تم بہت موڈرن ہو مگر تم میں ہمت نہیں ہے. ماں باپ سے صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ اپنی مرضی کےخلاف شادی نہیں کرونگی.”
حمیرہ نے کہا.”بات اتنی معمولی نہیں. قصّہ یہ ہے کہ ڈیڈی کا کوئی لڑکا نہیں ہے. اس کا انھیں ہر وقت احساس رہتا ہیں. ہم دونوں بہنیں اپنے کو مجرم سمجھتے ہوئے ان کی ہر خواہش کا احترام کرنے پرمجبور ہیں. پھرہم انھیں یہ احساس بھی دلانا چاہتے ہیں کہ لڑکا نہ ہونا کوئی کمی نہیں ہے. ہم بھی وہ سب کچھہ کرسکتے ہیں جو ان کےبیٹے کرتے. میں نے اسی لیے اسکول چھوڑ کر ان کے اسٹور میں کام کرنا شروع کردیا. اگر انھیں یہ خیال ہوتا کہ لڑکا پڑھ لکھہ کرنام پیدا کرتا تو میں دنیا کی ساری ڈگریاں سمیٹ لیتی’ سارے علم گھول کرپی جانے کی کوشش کرتی”.
“یہ مصوری کا کیا چکر ہے؟”
“یہ بھی جعلی ہے. زینت کی مقبولیت کا ڈیڈی پر اثرہوا ہے. یہ بات ان کے لیے ایک انکشاف تھی کہ زینت کی طرح ان کے گھرانے کی لڑکیاں بھی کچھہ کرسکتی ہیں، اسی لیے انھوں نے میرے شوق کی حوصلہ افزائی کی. اور تو اور اب وہ یہ بھی کہنے لگےہیں کہ ثمینہ ڈاکٹری پڑھنے کی کوشش کرے.” ثمینہ’ حمیرہ کی چھوٹی بہن تھی.
“تمھاری ماں کیا کہتی ہیں؟”
“انھیں چھوڑیے. ان میں تو بہت چھچوراپن ہے’ سوچ کر ہی شرم آتی ہے. وہر وقت کپڑوں لتوں، گہنوں اور فرنیچر وغیرہ کے بارے خیال میں غرق رہتی ہیں’ اس کے علاوہ انھیں افیون کی طرح فلموں کی لت ہے. گھر میں ہر وقت وڈیو اور فلموں کا چرچا رہتا ہے. شاید آپ یقین نہ کریں’ ممی ایک ایک فلم بیس بیس بار دیکھتی ہیں پھر بھی ان کا جی نہیں بھرتا. ان کی سب جاننے والیاں بھی اسی مزاق کی ہیں.” عدّو چپ چاپ سوچتا رہا.
حمیرہ خالص مشرقی لڑکیوں کی طرح دپٹا دونوں ہاتھوں میں بے کار مروڑ رہی تھی. تھوڑی دیر بعد وہ نظریں نیچے کیے ہوئے بولی.”اب تو آپ مجھہ سے خفا نہیں ہیں؟”
عدّو زور سے ہنسا.”نہیں بھئی. مجھے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے.”
“آپ نے کل کہا تھا کہ اب یہاں قدم نہ رکھنا.” اس کی آواز بھرّا گئی.
عدّو کو افسوس ہوا. وہ اپنے جملے کی تلخی چھپانے کے لیے بہت زور سے ہنسا. “اماں ہٹاؤ بھی. وہ تو کل کی بات تھی. یہ فلیٹ تمھارا ہے. جب چاہو آؤ جاؤ’ بشرطیکہ نور میاں کو کوئی اعتراض نہ ہو.”
چند ہی روز میں حمیرہ باقاعدہ عدّو کی زندگی میں دخیل ہو گئی. جس دن وہ نہ آتی’ عدّو کو کمی محسوس ہوتی. یہ کہیں زینت ہی جیسی کمی تو نہیں ہے؟ ایک بارعدّو نے خود تنقیدی کے عالم میں سوچا مگر حسب معمول وہ اپنے آپ سے جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا.
حمیرہ جب بھی آتی. اسے اصرار سے کہیں نہ کہیں لے جاتی. زیادہ تر وہ رشتےداروں میں جاتے تھے. عدّو کو معلوم تھا کہ لوگ حمیرہ اور اس کی محبت پرکانا پھوسی کرنے لگے ہیں. اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نور میاں سب کچھہ جانتے ہوئے بھی چپ ہیں. عام طور پر وہ عدّو کے سامنے نہیں آتے تھے. ایک آدھ بار تو عدّو نے محسوس کیا کہ عدّو کی آئی ٹائپ دیکھتے ہی وہ خواہ گھر میں ہو یا دکان پر کسی نہ کسی طرح سامنے سے ہٹ جاتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ موجود نہیں ہیں یا عدّو کی موجودی انکے علم میں نہیں ہے.

کئی دن سے عدّو کے پیٹ میں ہلکا ہلکا درد تھا. اسے خیال آیا کہ اب بہت دنوں بعد اب وہ مسالے دارکھانے اور مرغن پکوان پھر کھانے لگا ہے اسی لیے شاید ہاضمے پر برا اثر پڑا ہے. ایک بار اس نے ایک تقریب میں ڈاکٹر مہرا سے اس کا ذکر کیا. انھوں نے جوشو خروش سے اپنے کلینک آنے کی دعوت دی.
عدّو نے کلینک کے استقبالیہ کمرے میں اپنا نام بتایا. ڈاکٹرمہرا سب چھوڑ چھاڑ کے اس سے ملنے آگۓ. اسے انھوں نے اپنے خاص الخاص کمرے میں بٹھایا اور صوبے کی سیاست عدّو کے والد اور آپا جان کے بارے میں باتیں کرنے لگے اور یہ یقین دلاتے رہےکہ “اس سے اچھا نرسنگ ہوم تمھیں یہاں کہیں نہیں ملے گا. میں خود ہر مریض کو پوری توجہ سے دیکھتا ہوں. اب ذرا تم لیٹو. میں دیکھوں’ کیا گڑبڑ مچائی ہے تم نے دعوتیں کھا کھا کر.”
ڈاکٹر مہرا نے تفصیلی معائنہ کیا پھر اپنے دو معاون ڈاکٹروں کو بلایا. تینوں نے طرح طرح کی مشینوں پر مختلف لکیریں اور سوئیاں اٹھتی’ بڑھتی’ گھٹتی دیکھیں پھر ایک نرس نے عدّو سے کہا کہ وہ کپڑے پہن لے.
ڈاکٹر مہرا بہ ظاہر بہت بے فکری سے باتیں کر رہے تھے مگر انکی شگفتگی کم ہوگئی تھی. عدّو کواپنے نرسنگ ہوم میں داخل کرنے کے بجاۓ انھوں نے اسے ایک خط دیا کہ وہ امپیریل انسٹی ٹیوٹ میں بھی جانچ کراۓ.
تو یہ بات ہے جناب! بس باندھیے بوریا بستر. عدّو نے امپیریل انسٹی ٹیوٹ سے واپسی میں سوچا. بہار کی آمد آمد تھی اور مدتوں بعد خوب چمکیلا سورج نکلا تھا. نائٹس برج اور کیسنٹگتٹن ہائی اسٹریٹ پر خوشیوں کا سیلاب آیا ہوا تھا. عدّو دھیرے دھیرے گاڑی چلاتا ٹیوی اسٹاک پیلس کی طرف جا رہا تھا. اس نے سڑک کے دونوں اطراف نظر ڈال کر کہا. “اے دل تجھے کیا ہو گیا؟”
پچھلی رات دفترمیں اس نے ایڈیٹر سے کہا.”مجھے اب اس ملازمت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے.”
فلیٹ پر ڈاکٹر مہرا کے دو تین دوست عدّو کو اسپتال میں داخل کرانے آۓ تھے.

ڈاکٹروں نے آپریشن کے لیے دائیں طرف سے پیٹ کاٹا تو سکتے میں رہ گئے. پورے نچلے حصّے میں سرطان پھیل چکا تھا. اب آپریشن سے کسی افاقے کی امید نہیں تھی’ انھوں نے زخم یوں ہی بند کر کے ٹانکے لگا دیے.

جان منچ نقلی داڑھی مونچ لگاۓ’ ناک کی نوک پر آدھے شیشوں کی عینک جماۓ رٹز ہوٹل کے چاۓ خانے میں بیٹھا تھا. بہ ظاہر وہ “وال اسٹریٹ جرنل” پڑھنے میں مصروف تھا مگر دراصل ہالی وڈ کی ایک مشہور اداکارہ کی ٹوہ میں تھا. جان منچ کو بھنک ملی تھی کہ وہ اداکارہ ایک فرضی نام سے ہوٹل میں ٹھیری ہوئی ہے. ہوٹل کے ملازموں کو بھی عام طور پر اس کے قیام کی خبر نہیں تھی. معا اس کی نظر ژنییت پرپڑی. وہ کسی پیج بواۓ سے باتیں کرتی ہوئی باہر جا رہی تھی. جان منچ نے سوچا کہ اگر ژنییت بھی یہیں مقیم ہے تو اس سے مدد مل سکتی ہے. وہ فی الفور اٹھہ کر اس طرح باہر جانے لگا کہ زینت سے ٹکرا گیا. جان بوجھہ کر اس نے اخبار بھی اپنے ہاتھہ سے گرا دیا. چناچہ زینت نے رک کر اس سے معذرت چاہی. جان منچ نے ایک دم کہا.”تم ژنییت ہونا. میں تمہی سے ملنے یہاں آیا ہوں. زینت کو تعجب ہوا مگر جان منچ نے اسے جلدی جلدی بتایا کہ اصل معاملہ کیاہے.”
زینت کو ہنسی آگئی. وہ بولی.”افسوس میں تمھاری کومدد نہیں کر سکتی کیوں کہ جو اداکارہ یہاں ٹھیری ہوئی ہے’ وہ’ وہ نہیں ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو.”
جان منچ کو یقین نہیں آیا. اس نے فیصلہ کرلیا کہ ہوٹل ہی میں رکے گا خواہ ساری رات انتظار کرنا پڑے. زینت جانے لگی تو جان منچ نے اس سے کہا.”مجھے تمھارے دوست کے بارے میں بڑا افسوس ہوا.”
“کون سا دوست؟” زینت نے تعجب سے پوچھا.
جان منچ نے کہا.”وہی آڈل آمڈ جو اخبار میں تھا.”
زینت ٹھٹک کر بولی.”کیوں؟ کیا ہوا اسے؟”
“ارے تمہیں معلوم ہی نہیں؟ اسے سرطان ہے. پرنسس گریس اسپتال میں ہےوہ. تم کیسی دوست ہو کہ تمھیں…..”
زینت اپنی تمام مصروفیات کو منسوخ کر کے سیدھی پرنسس گریس اسپتال پہنچی. عدّو کے کمرے کے باہر نوٹس لگا تھا کہ یہ مریض کے آرام کا وقت ہے’ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں. مگر زینت نے ایک نرس کو سمجھا بجھا کر آمادہ کرلیا. اس نے اسے اندر جانے کی اجازت دیدی.
عدّو نیم غنودگی میں تھا. کئی دن سے غذا بلکل بند تھی’ وہ بےحد نحیف و نزاد ہو گیا تھا. کمرے کی کھڑکیاں آدھی کھلی تھیں’ ان پر پردے لہرا رہے تھے. باہر سے زندگی کی گہماگہمی اور بشاشت سے بھرپور آوازیں آرہی تھیں اور کمرے میں ہر طرف تازہ پھولوں سے بھرے ہوئےگل دان رکھے تھے.
کوئی تین مہینے پہلے اس نے عدّو کو چھوڑا تھا. اس وقت عدّو ایک وجیہہ’ بدماغ اور اپنی صلاحیتوں کے بارے میں اعتماد سے بھرپور کوئی ہیرو لگتا تھا اور یہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس سال کاہوگا مگر آج وہ کم زور تھا. اس کا شیو بڑھا ہوا تھا اور داڑھی کے بال سفید نظر آرہے تھے. اس کا چہرہ بلکل بے نور تھا اور اس کی عمر پینتالیس پچاس کے درمیان نظر آرہی تھی. اس کی سفید سفید کلائیوں پر ابھری ہوئی نیلی نیلی رگیں زینت کو بہت اچھی لگتی تھیں مگر اب وہ نظر نہیں آرہی تھیں.اس کے ہاتھہ سوکھے ہوئے تھے اور ان کی رنگت میں جھلسی جھلسی تھی.
زینت کرسی پر بیٹھہ کر عدّو کو دیکھتی رہی.
عدّو کو یکایک کمرے میں کسی اور کے ہونے کا احساس ہوا. اس نے آنکھیں کھول کر زینت کو دیکھا مگر کوئی حیرت ظاہر کیے بغیر معمول کے مطابق اس نے انگیزی میں زینت سے پوچھا.”کیسی ہو؟”
زینت نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے دھیرے سے بولی.”مجھے آپ کے بارے میں کچھہ معلوم نہیں تھا. ابھی کوئی ایک گھنٹہ پہلے جان منچ نے بتایا.”
عدّو کے سرھانے رکھے ہوئے ریڈیوفون پر نرس نے پوچھا. سمندر پار سے آپ کا فون ہے’ بات کیجیےگا؟ عدّو نے “ہاں” کہہ کر میز کی طرف ہاتھہ بڑھایا. زینت نے ٹیلی فون اٹھانے میں اس کی مدد کی.
“جی ہاں آپا جان! اچھاہوں. سب ٹھیک ہے، بس دو تین ہی دن میں گھر چلا جاؤں گا.”
عدّو بن بن کر زور زور سے باتیں کر رہا تھا جیسے کوئی خاص بات نہیں ہے. دوسری طرف سے ماں بھی یہی تاثر دے رہی تھی کہ اس نے سررا ہے گا ہے خیریت کے لیے فون کیا ہے حالاں کہ وہ دلّی سو بول رہی تھی اور جلد سے جلد لندن کے لیے ہوائی جہاز کی نشست حاصل کرنے کی تگ ودو میں تھی.
ٹیلی فون رکھہ کر عدّو ہانپنے لگا. زور زور سے بات کرنے اور اپنی آواز میں زندگی کا ثبوت دینے کے بعد وہ ایسا تھک گیا تھا گویا اب کوئی حرف منہ سے نہیں نکل سکے گا. زینت اسپتال سے نہیں گئی.
عدّو کے سب ملنے والے آکر جا چکے تو زینت نے لڑ جھگڑ کر عدّو ہی کے کمرے میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی.
عدّو کو خواب آور دوا دی گئی تھی’ وہ سکون سے سو رہا تھا اور درد کی اذیت سے محفوظ تھا مگر زینت کو رات بھر نیند نہیں آئی. وہ بس عدّو کو دیکھتی رہی اور نہ معلوم کیا کیا سوچتی رہی.
صبح ہوتے وقت ذرا زینت کی آنکھہ لگی مگر جلد ہی وہ کسی برے خواب سے ڈر کر چونکی اور رونے لگی.
عدّو خاموشی سے زینت کو دیکھے جا رہا تھا. اس کی آنکھوں میں مایوسی کو پرچھائیاں دیکھہ کر زینت کانپ اٹھی. یہ آنکھیں’ یہ چہرہ اور یہ مایوسی اس نے پہلی بھی کہیں دیکھی تھی! مگر کہاں؟ ہاں یاد آیا’ ابو! مگر ابو اور عدّو بھائی کے چہرے ایک جیسے کیوں لگ رہے ہیں؟ اب اگر میں عدّو بھائی کی تصویر بناؤ گی تو لوگ سمجھیں گے کہ میں نے اپنے باپ کی شبیہہ اتاری ہے.
“تم رو کیوں رہی ہو؟ یہ لو انٹر کام’ اپنے لیے کافی منگاؤ.” عدّو نے آہستہ آہستہ زینت سے کہا.
“عدّو بھائی! آپ تو بلکل ابو کی طرح لگ رہے ہیں. ابھی ابھی میں انے خواب میں ابو کو دیکھاہے’ وہ حسب معمول کلمے کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہ رہے تھے.”الله کی مرضی’ الله کی مرضی”.
عدّو خواہ مخواہ مسکرایا. “زینت بٹیا!افلاس ہو یا بیماری’ بے کسی ہو یا دیوانگی. روپ سب کا ایک جیسا ہوتا ہے. نوابو چچا کی جو شکل مفلسی میں تھی’ وہی بیماری میں میری ہو گئی. اسمیں تعجب کی کیا بات ہے؟” زینت حسرت سے عدّو کو دیکھہ رہی تھی’ اس کا ذہن نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہا تھا. عدّو بولا. “مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمام گھریلو تعصبات’ حقارتوں اور نفرتوں کی فولادی دیواریں توڑ کر تم میری طرف کیسے نکل آئیں؟”
“دراصل میری ساری جدوجہد کا بنیادی سبب آپ ہی تھے”. زینت نے آپی آپ محظوظ ہوتے ہوئے کہا.
“میں؟ کیسے؟” عدّو نقاہت اور تکلیف کے باوجود بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا.
کسی جادوئی کہانی کی طرح دیو کی طرح ٹھیک اسی وقت ایک نرس داخل ہوئی. اس نے بہت بناوٹی محبت سے ڈانٹ کر کہا.”،،،نہیں’ نہیں شیطانی کرنے کی ضرورت نہیں. چپ چاپ لیٹے رہو.”
ایک نرس نے کمرے کے پردے کھولے اور دوسری نرس نے بہت سے تازہ پھول گل دان میں سجا دیے. تیسری نرس “مسز احمد” کے لیے ناشتہ لے کرآئی. اس نے ناشتہ زینت کے سامنے میز پر چن دیا. یہ نرس غالبا فلپائن کی تھی. “ولانام احمد” یعنی یہ لیجیے بیگم احمد ! زینت نے عجیب شرم سے عدّو کو دیکھا. وہ ہنسنے لگا.
تھوڑی دیربعد ڈاکٹروں’ مشیروں اور ملنے والوں کا تانتا بندھ گیا. زینت واپس ہوٹل چلی گئی. تقریبآ دن بھر سوتی رہی. شام کو اس نے جگہ جگہ فون کر کے اپنی مصروفیات منسوح کیں اور پرنسس گریس اسپتال فون کیا. اسے معلوم ہوا کہ مریض کے پاس رات کو کوئی نہیں رہے گا. اسنے اپنے جاننے والوں کا سہارا لے کر وہاں رات بھر کے لیے قیام کی باقاعدہ اجازت حاصل کرلی.
شام کو وہ خالی خالی گھومتی ہوئی پیدل اسپتال پہنچی. اس نے وہاں بہت سسے لوگوں کو دیکھا. زیادہ تر اس کے رشتےدار تھے. وہ ایک طرف الگ کھڑی ہو گئی تا کہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے.

“عدّو بھائی! سب بچوں کی طرح میں بھی آپ کو اپنا ہیرو سمجھتی تھی مگر میں دوسروں کے مقابلے میں اپنی عام معلومات بڑھانے کے چکر میں رہتی تھی تا کہ آپ مجھے شاباشی دیں لیکن میں نے جلد محسوس کرلیا کہ آپ کو اصل میں سارے بچوں سے محبت نہیں ہے’ آپ کو صرف اچھے’ صاف ستھرے’ کھاتے پیتے اور خوبصورت بچوں سے محبت ہے. اگر آپ کو واقعی سارے بچوں سے محبت ہوتی تو آپ مجھے مہترانی’ بھنگن اور چمارن کہ کر نہ بھگاتے. میں تو آپ کے شوق میں خوب اخبار اور کتابیں پڑھتی تھی مگر آپ نے کبھی میری طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا.”
“پھر اچانک امی کا دیوانہ پن میری سمجھہ میں آگیا. میں ابو سے بے پناہ محبت کرنے لگی. میں نے کبھی انہیں یہ الزام نہیں دیا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح کھانے پینے کی چیزیں گھر میں کیوں نہیں لاتے. میں نے احمد کو بھی بہت سمجھایا مگر وہ ہمیشہ کا بیمار تھا’ وہ علاج کے بغیر ہی مر گیا. ابو’ امی اور احمد تینوں کو گورغریباں میں دفن کیا گیا اور آج کسی کو ان کی قبروں کا نشان بھی نہیں معلوم مگر عدّو بھائی! میں جب تک زندہ ہوں’ انھیں میں اپنی کوششوں میں زندہ رکھوں گی.” عدّو غور سے آنکھیں کھولے زینت کو دیکھہ رہا تھا. اس کا ایک ایک حرف عدّو کا ذہن پر نقش ہو رہا تھا. زینت کو ایک دم کچھہ احساس ہوا’ وہ کچھہ رک کربولی.”آپ غلط نہ سمجھیے گا’ میں آپ کو کچھہ یاد نہیں دلا رہی ہوں بلکہ آپ کو میرے بارے میں جاننے کی خواہش ہے اس لیے یہ ذکر کر رہی ہوں. اب میری تمام نفرتیں اور تلخیاں ختم ہو گئی ہیں، اس لیے ہلکے دل سے آپ کو مزے لے لے کر بتا رہی ہوں تا کہ آپ بھی لطف لے سکیں. کسی اور کو دنیا میں کبھی یہ سب کچھہ معلوم نہیں ہوگا، نہ میں بتاؤں گی. کہنا مجھے صرف یہ ہے کہ میں نے تے کرلیا ہے اپنے ماں باپ کی ذلتیں بھولوں گی نہیں اس لیے کبھی ہار نہیں مانوں گی. اگر میری جیت نہ ہوئی تو بھی لڑتی رہوں گی.”
عدّو کی نظروں میں زینت کے لیے عقیدت و احترام کا حقیقی جذبہ تھا اور کچھہ احساس زیاں بھی جھلک رہا تھا.
رات کو نرس آئی. اس نے معمول کے مطابق خون’ دل اور نبض کا جائزہ لیا’ رات کی دوا تیار کر کے رکھی اور سب روشنیاں بجھا کر جانے لگی. اس نے زینت سے کہا کہ وہ سو جاۓ’ مریض کو زیادہ تھکن نہ ہونے دے.
عدّو نے سرھانے کا مدھم بلب جلا دیا اور زینت سے کہا. “مجھے یہ دوا نہیں پینی’ اس سے نیند آجاۓ گی. میں چاہتا ہوں کہ دیر تک جاگتا رہوں اور تم سے باتیں ہوتی رہیں.”
“یہ آپ کے لیے مضر ہوگا.” زینت نے سمجھایا.
عدّو ہنس پڑا. “تمھیں اب تک یہی اندازہ نہیں ہوا کہ میں مضر اور مفید کے تصورات سے عاری ہو چکا ہوں. جو ہونا ہے’ وہ مجھے بہ خوبی معلوم ہے اور تم بھی اس سے ناواقف نہیں ہو”. زینت خاموشی سے اپنے ناخن دیکھتی رہی.
چند لمحوں بعد زینت بولی میں کالج سے طلبہ یونین کے جھگڑے کی بنا پر نکالی گئی تھی’ یونین میں ایک کشمیری لڑکا کول بھی تھا، وہ میرا بری طرح عاشق ہوگیا’ جان دینے پر آمادہ تھا.”
“ہاں’ اس بارے میں مجھے ذرا ذرا معلوم ہوا تھا.”
“کول نے میری ہر طرح مدد کی. بڑے گھرانے کا لڑکا تھا پھر بھی مجھہ سے باقاعدہ شادی کرنے پر تلا ہوا تھا. مجھے بھی اسکے احسانوں کا بدلہ چکانے کی بہت فکر تھی.”
“پھر؟”
“پھر میں نے اسے چھوڑ کر اقبال سے شادی کرلی.”
“کیوں؟” عدّو نے تعجب سے کہا. اسے زینت کی داستان میں بے حد دلچسپی محسوس ہو رہی تھی، وہ اپنی بیماری اور تکلیف بھول گیا.
“اقبال بہت بیمار تھا. اسے نہ معلوم کیا بیماری تھی. خود بہ خود گھلا جارہا تھا. اس نے مجھہ سے ہاتھہ جوڑ جوڑ کر خوشامد کی کہ میں اس سے شادی کرلوں. آخر مجھے اس پر رحم آگیا. میں نے اس کی زندگی کی آخری خواہش پوری کرنے کے خیال سے ہاں کہہ دیا. وہ میرے ساتھہ تین چار مہینے رہا پھر انگلستان آگیا. بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے میں اس کے ساتھہ نہیں آسکی. اصل میں مجھے آخر وقت تک کول ہی سے شادی کرنے کا خیال رہا.”
“خوب یہ سب کچھہ ہو گیا اور خاندان والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی؟.”
“یہ نہ کیسے. خبر سب کو تھی مگر چوں کہ میں احمد کے مرنے کے بعد بلکل بے سہارا اور طوفان میں تنکے کی طرح تھی. اس لیے کی میری خاطر اپنے سر کسی طرح کی مصیبت یا ذمے داری لینے کو تیار نہیں تھا. بہر حال مختصر طور پر یہ بتانا بہتر ہے کہ مجھہ سے پہلے اقبال’ کول کی بہن چترا کا عاشق تھا. ہماری جماعت والوں نے اس کی سخت مخالفت کی. کول کے رشتےدار ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ تھے’ پارٹی کا کہنا تھا کہ اس کی غیر معمولی تشہیر ہوگی. کیا پتہ’ ہندو مسلم فساد ہو جاۓ اس لیے چترا زبردستی امریکا بھیج دی گئی اور اقبال کو جماعت سے نکال دیا گیا.”
“مگر تمھاری جماعت کو تمھارے اور کول کے تعلقات بلکہ شادی کے منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا؟”
“میں نے اس پرغور نہیں کیا مگر یہ سب باتیں اقبال نے اپنے ایک خط میں لکھی تھیں، وہ خط اس کے مرنے کے بعد مجھےملا تھا’ اس نے ایک جملہ مزے کا لکھا تھا’ میں خواب ہنسی. اس نے لکھا تھا. میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ طلبہ کی اپنی تنظیم بھی اصل میں فرقہ پرستوں کی جماعت کا ایک حصّہ ہے اور اس کا اصل کام مسلمان لڑکیوں کو خراب کرنا ہے.” “ہاں’ اس بارے میں مجھے ذرا ذرا معلوم ہوا تھا.”
“کول نے میری ہر طرح مدد کی. بڑے گھرانے کا لڑکا تھا پھر بھی مجھہ سے باقاعدہ شادی کرنے پر تلا ہوا تھا. مجھے بھی اسکے احسانوں کا بدلہ چکانے کی بہت فکر تھی.”
“پھر؟”
“پھر میں نے اسے چھوڑ کر اقبال سے شادی کرلی.”
“کیوں؟” عدّو نے تعجب سے کہا. اسے زینت کی داستان میں بے حد دلچسپی محسوس ہو رہی تھی، وہ اپنی بیماری اور تکلیف بھول گیا.
“اقبال بہت بیمار تھا. اسے نہ معلوم کیا بیماری تھی. خود بہ خود گھلا جارہا تھا. اس نے مجھہ سے ہاتھہ جوڑ جوڑ کر خوشامد کی کہ میں اس سے شادی کرلوں. آخر مجھے اس پر رحم آگیا. میں نے اس کی زندگی کی آخری خواہش پوری کرنے کے خیال سے ہاں کہہ دیا. وہ میرے ساتھہ تین چار مہینے رہا پھر انگلستان آگیا. بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے میں اس کے ساتھہ نہیں آسکی. اصل میں مجھے آخر وقت تک کول ہی سے شادی کرنے کا خیال رہا.”
“خوب یہ سب کچھہ ہو گیا اور خاندان والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی؟.”
“یہ نہ کیسے. خبر سب کو تھی مگر چوں کہ میں احمد کے مرنے کے بعد بلکل بے سہارا اور طوفان میں تنکے کی طرح تھی. اس لیے کی میری خاطر اپنے سر کسی طرح کی مصیبت یا ذمے داری لینے کو تیار نہیں تھا. بہر حال مختصر طور پر یہ بتانا بہتر ہے کہ مجھہ سے پہلے اقبال’ کول کی بہن چترا کا عاشق تھا. ہماری جماعت والوں نے اس کی سخت مخالفت کی. کول کے رشتےدار ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ تھے’ پارٹی کا کہنا تھا کہ اس کی غیر معمولی تشہیر ہوگی. کیا پتہ’ ہندو مسلم فساد ہو جاۓ اس لیے چترا زبردستی امریکا بھیج دی گئی اور اقبال کو جماعت سے نکال دیا گیا.”
“مگر تمھاری جماعت کو تمھارے اور کول کے تعلقات بلکہ شادی کے منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا؟”
“میں نے اس پرغور نہیں کیا مگر یہ سب باتیں اقبال نے اپنے ایک خط میں لکھی تھیں، وہ خط اس کے مرنے کے بعد مجھے ملا تھا، اس نے ایک جملہ مزے کا لکھا تھا’ میں خوب ہنسی. اس نے لکھا تھا. میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ طلبہ کی اپنی تنظیم بھی اصل میں فرقہ پرستوں کی جماعت کا ایک حصّہ ہے اور اس کا اصل کام مسلمان لڑکیوں کو خراب کرنا ہے.” عدّو کو ہنسی آگئی.
زینت بھی بشاش نظر آنے لگی. تھوڑی دیر بعد وہ بولی.”مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اقبال کو مجھہ سے بلکل دلچسپی نہیں تھی.”
“کیا مطلب؟” عدّونے حیران ہو کر پوچھا.
“وہ کول کو چترا کے امریکا جانے کا ذمے سمجھتا تھا اور مجھہ سے شادی کر کے کول سے انتقام لے رہا تھا. اپنے انتقامی مقصد کے لیے اس نے مجھے استعمال کیا.”
“مگر تم کیوں استعمال ہوگئیں؟”
عدّو بھائی! میں بلکل بے سہاراتھی’ اقبال نے کم سے کم مجھے سہارا تو دیا. وہ ایک پیسے والے گھرانے کا اکلوتا لڑکا تھا، معاشیات میں وہ پوری یونی ورسٹی میں اول آیا تھا. طبیعت کا بھی اچھا تھا. میں نے اس سے شادی رحم کھا کر کی تھی مگر جب میں اس کی پوری جائداد اور پیسے وغیرہ کی مالک بن گئی تو احساس ہوا کہ اب رشتےدار مجھے رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں. بعد میں میں نے اقبال کی ڈائری پڑھی. ڈائری پڑھنے کے بعد میں اس سے شادی کرنے پر مطلق نادم نہیں ہوں.”
“ہونھہ.” عدّو نے کچھہ سوچتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش کی. درد کی وجہ سے وہ کروٹ نہیں بدل سکا اس لیے سیدھا لیٹ کر چھت دیکھنے لگا.
“میں اقبال کی ساری املاک کی وارث تو تھی ہی’ اقبال کے باپ کی ایک بڑی رقم یہاں ایک بیمہ کمپنی میں پھنسی ہوئی تھی’ وہ بھی مجھی کو ملی. میں نے آرٹ اسکول میں باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی پھر بچوں کی امداد کے عالمی ادارے میں شامل ہو گئی. مجھے بھی بچوں سے محبت ہے مگر ہر طرح کے بچوں سے. ننگے’ بھوکے’ بیمار’ سوکھے اور یتیم بچے میرا خاندان ہیں. ان کے لیے میں ملکوں ملکوں پھرتی ہوں اور اپنی تصویروں کی زیادہ تر آمدنی بچوں کی بہبود کے فنڈ میں دے دیتی ہوں. ایسا کر کے میں کسی پر احسان نہیں کرتی بلکہ مجھے احمد کا خیال رہتا ہے’ اس کی دوا کے لیے اس کے سگے ماموں نے دو روپے دینے سے انکار کردیا تھا.”
“ایاندو بھی ایک طرح میرا بچہ ہے’ اسے میں نے اس کے وطن خانہ جنگی میں کوڑے کے نیچے دبا ہوا پایا تھا. اس کے سب گھر والے مارے جا چکے تھے. اب میں ہی اس کی دیکھہ بھال کرتی ہوں. ایاندو کے معاملے میں آپ کی تشویش غلط تھی.” عدّو نے چونک کر زینت کی طرف دیکھا. زینت ایک افسردہ مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی. عدّو کو اپنی طرف متوجہ دیکھہ کر اس نے بات بدلی.” آپ بہت تھک گئے ہیں. اب سوجائیے. میں کل کی طرح آج بھی صوفے پر سو جاؤں گی.” مگر عدّو زینت کو برابر دیکھتا رہا. زینت بے کلی محسوس کرتے ہوئے بولی.”کیا دیکھہ رہے ہیں آپ؟”
“کچھہ نہیں.” عدّو پھر چھت دیکھنے لگا. دونوں خاموش اور ساکت تھے. خاموشی بہت گہری اور دل خراش تھی. پورا اسپتال ایک سکوت میں ڈوبا ہوا تھا’ سکوت کی حدیں اس منزل سے ملتی تھیں جس کی جانب تمام مریض دم بہ دم بڑھ رہے تھے.
زینت کے آنے جانے سے کسی کو اعتراض ہویا نہ ہو مگرعدّو کی وجہ سے سب خاموش تھے. عدّو نے ایک آدھ بار حمیرہ کے بارے میں کسی سے پوچھا مگر کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا. اس نے سوچا’ شاید حمیرہ خود زینت کی وجہ سے کٹی کٹی رہتی ہو یا پھر نور میاں نے کوئی قدم اٹھایا ہو.
زینت کو یقین تھا کہ آپاجان کے آنے کے بعد اس کا اسپتال میں داخلہ بینڈ ہو جاۓ گا مگرعدّو کے کہنے پر وہ مستقل آتی رہی. آپاجان آئیں تو انھوں نے بھی اعترا ض نہیں کیا بلکہ خود اکثرو بیشتر زینت سے خیریت وغیرہ پوچھتیں. آپاجان زیادہ تر اسپتال میں رہتیں، جب وہ نہانے دھونے کے لیے عدّو کے فلیٹ جاتیں تو زینت عدّو کے پاس رہتی. اسپتال میں کھانے کا کوئی انتظام خاص طور پر آپاجان کے لیے نہیں تھا، اس لیے بھی انہیں فلیٹ جانا پڑتا تھا.
ایک سہہ پہر وہاں کوئی نہیں تھا. عدّو بھی بظاھر بہتر دکھائی دے رہا تھا. وہ تکیے سے ٹیک لگاۓ آدھا بیٹھا اور آدھا لیٹا ہوا تھا. اس نے زینت سے کہا.”مجھے خوشی اس کی ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا’ وہ تم نے کر دکھایا.”
زینت نے پوچھا.”کون سا کام؟”
عدّو نےکہا.”یہی اپنے گھر کی روایت کو توڑنا. میں نے تھوڑی بہت کوشش کی مگر بہت اپر نہیں اٹھہ سکا. اچھا ہوا کہ تم نے تمام زنجیریں توڑ دیں. تمھاری فکر میں توازن کی کمی بھی نہیں ہوئی.”
زینت نے کہا. “اصل میں آپ کااپنے باپ دادا کی روش ترک کرنا زیادہ بہادری کا کام ہے. آپ نے زندگی کو دوسرے زاویے سے دیکھنا بھی سیکھہ لیا ہے. آپ نے ہر آرام وآسائش پر لات ماردی. میرے پاس ٹھکرانے کے لیے کچھہ تھا ہی نہیں اس لیے میں نے سب کچھہ پایا ہی پایا ہے. میرے برعکس آپ نے سب کچھہ کھویا ہی کھویا ہے.”
“میرا خیال ہے’ یہ فیصلہ قبل ازوقت ہے.” عدّو نے اس طرح مسکرا کر کہا گویا اسے ابھی کئی صدیوں تک زندہ رہنا ہے.
تھوڑی دیرکی خاموشی کے بعد زینت نے بات بدل کرکہا. “عدّو بھائی”! یاد ہے’ آپ نے مجھہ سے پوچھا تھا نہ کہ میں کیوں کسی اور کے مقصد کے لیے استعمال ہوگئی؟ چلیے’ میری تو مجبوری تھی مگر نور میاں کی لڑکیاں کیوں اپنے باپ کے مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں؟ لوگ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے لیے ان سے شادی کرنا چاہتے ہیں. یہ بھی تو…..خیر ہٹائیے.”
“کہو کہو. چپ کیوں ہو گئیں.” عدّو نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا. “میں آپ کو زیادہ نہیں بتاؤں گی مگر
نورمیاں ہی نے شاید کچھہ ایسا کیا تھا کہ آپ سے ملے بغیر چلی گئی تھی. آپ خود سوچ سمجھہ کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے.”
عدّونے زینت کے چہرے پر بھرپور نظر ڈالی. وہ ایک معمولی سی گھریلو لڑکی لگ رہی تھی. ایسی لڑکی جو بہو بیٹی کی حیثیت سے کسی بھلے گھرانے کی واقعی زینت ہو سکتی ہو. “ہونھہ…. کچھہ کچھہ سمجھہ آرہا ہے.” عدّو چپ ہوگیا. زینت بہ ظاہر ایک رسالے کی ورق گردانی کررہی تھی مگر چور نظروں سےعدّو کو بھی دیکھتی جا رہی تھی. عدّو کے چہرے پر عجیب سے ساۓ منڈلا رہے تھے.
دو تین دن بعد ڈاکٹروں نے ہر چیز کے تفصیلی تجزیے کی بنا پر ایک جائزہ مرتب کیا. جائزے کے آخر میں کہا گیا تھا کہ اسپتال میں مریض کے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں’ اسے وہاں جانا چاہیے جہاں اس کے اپنے لوگ اس کی دیکھہ بھال کر سکیں.
عدّو کو ایک ایمبولینس کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچایا گیا’ ایمبولینس کے پیچھے کئی گاڑیاں تھیں’ ان میں عدّو کے جاننے والے اور اعزا وغیرہ تھے. سب سے آخر میں زینت کی ٹیکسی تھی.
ایمبولینس ہوائی اڈے کے خفیہ راستے سے ہوائی جہاز تک گئی. زینت نے صبح عدّو کو اسپتال میں اس وقت دیکھا تھا جب اسے ایمبولینس میں لے جایا جا رہا تھا، عدّو پر نیم غشی طاری تھی اور غالبا اسے خبر نہیں تھی کہ وہ ایمبولینس میں لیٹا ہوا ہے.
ایمبولینس اندر چلی گئی. جاننے والوں کی گاڑیاں بھی چلی گئیں. زینت نے ایک پرچے پر نظر ڈالی. یہ پرچا عدّو نے پچھلی شام اس کے لیے رکھا تھا. صرف ایک جملہ تھا. وہ بھی اینگریزی میں. “تمھارا یہ خیال غلط ہے کہ میں نے بہت کچھہ پالیا’ تمھیں. کیا یہ کم ہے؟ ” زینت خاموشی سے ٹیکسی میں بیٹھے پرچا دیکھ جا رہی تھی. بہت دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور نے جھنجلا کر کہا. “کیا بات ہے؟ تمھارے پاس کراۓ کے پیسے نہیں ہیں؟ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہو.”
زینت نے بہت سے نوٹ نکال کر اگلی نشست پر پھینک دے اور سسک سسک کر رونے لگی. “عدّو بھائی. عدّو بھائی.”
“بائی بائی.” ٹیکسی والے نے کہا.

Share