عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

نذر حیدرآباد کالونی، کراچی

 ریاست کا خومی ترانہ ہے یہ     سر راہ اک جیل خانہ ہے یہ
یہ نکڑ پہ اک سہ دری ٹین کی      یہ ڈسپنسری بھائ یاسین کی
یہ گھر ایک مرحوم استاد کا     علی اختر حیدرآباد کا
یہ ہر دل میں اسٹیٹ کا ولولہ    یہ ہر شیروانی کا چوڑا گلا
یہ کاڑی کی ڈبی پہ گاڑی کی چھاپ     نکو میری اماں، نکو میرے باپ
اگر چاہ تھی، چائے کو بولتے     تم ایسا بھلا کاے کو بولتے
حسینو میں شاعر ہوں مجھ سے ڈرو     مری شاعری سے بھی گوشہ کرو
میں سو پونڈ کا وزن گل کی ہو تم
میں ایک غیر ملکی ہوں، ملکی ہو تم

شاعر۔ نامعلوم

Share

کیوں بمقابلہ کیسے

سائنس جب کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں  تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ،  تخلیق کی  غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔

جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب  کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ  یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا کسی بھی سطح پر مسابقہ بے معنی ہے۔ ایک کا کیوں اور کیسے دوسرے کے کیوں اور کیسے سے قطعی مختلف ہے۔

اسی زمن میں امام غزالی نے فرمایا کہ

 ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے

Share

تلقین غزالی، ایک رفریشر

پچھلے دنوں گوگل ہینگ آوٹ پر برادرم ریاض شاہد  نے گفتگو کے دوران غزالی، الہیات اور عقل کی حیثیت پر ہماری ناقص راے پوچھی، اس استفسار کا جواب تو محدود مطالعے کی بنا پر جو ہم سے بن پڑا وہ دے دیا لیکن یہ خیال ذہن سے نکالے نا نکلا کہ امام غزالی کو پڑھے ہوے عرصہ گذرا، اور وہاں بھی ان کی کتب کا مطالعہ زیادہ تر کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب کے دروس تک ہی محدود رہا، کبھی شہرہ آفاق تحافتہ الفلاسفہ نہیں کھولی، محض تشریحات و اقتباسات پر ہی انحصار کرتے رہے۔ محدود وقت کی وجہ سے ہم نے قاضی قیصر السلام کی کتاب فلسفے کے بنیادی مسائل دوبارہ کھولی اور اس میں سے موجود امام غزالی پر ایک جامع مضمون دوبارہ پڑھ ڈالا، اب قارئین کی دلچسپی کے لئے اسکا کلف نوٹش ورژن شائع کئے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

امام غزالی

امام موصوف کا پورا نام ابو حامد محمّد ابن محمّد غزالی ہے. غزالی اپنے ہم عصر حکماۓ کلام میں نہایت ممتاز اور بلند پایہ شخصیت کے حامل ہیں. آپ مسلک شافعی کے آئمہ فکر میں سے ہیں. آپ خراسان کے شہر طوس میں ٤٥٠ھ میں پیدا ہوئے. آپ کے خیالات و افکار پر واضح روشنی خود آپ ہی کی تصنیف “المنقذ من الضلال” کے مطالعہ سے پڑتی ہے. اس کتاب میں موجودات عالم کے حقائق سے متعلق تشریحات کی گئی ہیں. آپ نے حقیقت کی بحث کے دوران فلاسفہ متکلمین باطنیه کے مبادیات پر غور کیا اور صرف تصوف، تامل، انجذاب ہی میں راہ ہدایت پائی. حالانکہ غزالی نے صوفیا کے افکار میں کوئی خاص ایزاد نہیں کیا. تاھم ان کے افکار کا فلسفه، عرب پر بڑا گہرا اثر پڑا. ان کی تصانیف میں جن دو کتابوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ان میں پہلی کتاب “مقاصد الفلاسفه” اور دوسری “تھافتھ الفلاسفه” ہے. مقاصد الفلاسفه دراصل علوم فلسفه کی تلخیص ہے اور تھافتھ الفلاسفه علوم فلسفه کے رد میں لکھی گئی.

اشعری الٰہیات کے مباحث میں پیش بہا کامرانیوں کی آخری کڑی امام غزالی ہیں. آپ کمسنی ہی میں یتیم ہو گئے تھے چناچہ آپ کے والد کے ایک صوفی دوست نے آپ کو تعلیم دلائی. بعد میں نیشا پور کے مدرسه میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی آپ نے مروجہ علوم میں ترقی کی، یہ صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشعری ہو گئے. بعد ازیں ٤٨٤ھ میں مدرسه بغداد کے صدر مقرر ہوئے. لیکن بہت آپ روحانی اضطراب کا شکار ہو گئے اور اس عہدے سے مستعفی ہو کر شام چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا پورا وقت مطالعہ و عبادات میں گزارا. ٤٩٩ھ  میں دوبارہ نیشا پور واپس آگۓ اور یہاں مدرسه نظامیہ میں معتدل اشعری نظام فکر کی تعلیم کی قیادت سنبھال لی جس پر تصوف کا رنگ غالب تھا، جسے ہم اہل سنت کی الٰہیات کا آخری ارتقا قرار دے سکتے ہیں. گویا امام غزالی کو اشعری الٰہیات کے فروغ میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے..

آپ کے حالات زندگی اور علمی حیثیت کے اس اجمال کے بعد اب ہم آپ کے افکار کا جائزہ لیں گے. امام صاحب کو متکلم فلسفی کا مرتبه دیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی حیثیت فلسفی متکلم کی ہے.

علم منطق کے بارے میں امام غزالی اپنی تصنیف “المنقذ من الضلال” میں لکھتے ہیں کہ ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے. امام غزالی کہتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ ہر انسان حیوان ہےتو اس سے یہ امرلازم ہوا کہ بعض حیوان انسان ہوتے ہیں. یعنی اصطلاحاً اسے یوں کہیں گے کہ موحیه کلیه کا عکس ہمیشہ موحیه جزئیہ ہوتا ہے. اس سے یہ انکشاف ہوا کہ دین کے اہم مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے اور پھر اس کو نہ مانا جاۓ تو کس دلیل کی بناء پر؟ تا ہم اس میں بھی عملا یہ قباحت ہے کہ کچھ لوگ اس حسن ظن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو اندازو معیار ان کا علم منطق میں ہے وہی عقائد و دینیات میں بھی ہوگا-..

حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی فہم و فراست صرف اس لئے..میدان پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے جب کہ الٰہیات میں یہی لوگ حد درجہ تساہل سے کام لیتے ہیں. فن منطق پر غزالی کی تنقید کا اصل منشاء بھی یہی ہے کہ ہر فن کے دائروں کو ان کے اپنے جداگانہ تناظر میں سمجھا جاۓ اور جب کبھی کسی مسئلہ پر بحث کی جاۓ تو اس میں تقلید کی بنا پر راۓ زنی سے پرہیز برتا جاۓ. بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت کا حامل ہے. چناچہ فلسفہ پر بھی امام غزالی کےاعتراضات کی نوعیت کچھہ ایسی ہی ہے.

مسئلہ وجود پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ وجود کے تین مختلف عالم ہیں:-

١ – عالم ملک — یہ وہ عالم ہے جس میں وجود کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے. اس میں عالم کا علم ادراک سے ہوتا ہے اور یہ ہر آن متغیر رہتا ہے.

٢- عالم ملکوت_ یہ عالم حقیقت کا غیر متغیر اور ابدی عالم ہے، جو خدا کے حکم سے قائم ہوا

اور یھ عالم جس کا محض پر تو ہے

٣ – عالم جبروت_ یہ درمیانی حالت ہے. صحیح معنوں میں اس کا تعلق حقیقت سے ہے مگر یہ بظاھر ادراک کی سطح پر معلوم ہوتا ہے اس درمیانی حالت میں انسانی روح ہے جو عالم حقیقت سے متعلق ہے اگر چھ بظاھر اس کا اظلال سطح ادراکی پر ہوتا ہے.جس سے اس کا تعلق نہیں اور پھر یہ حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے.

قلم و لوح وغیرہ جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے. محض تمثیل نہیں ہیں. ان کا تعلق عالم حقیقت سے ہے اور اس لئے یہ اس کے علاوہ ہیں جو کچھہ ہم اس عالم ادراک میں دیکھتے ہیں. یہ تینون سطحیں یا عالم زمان اور مکان میں علیحدہ نہیں ہیں. بلکہ انہیں وجود کی ہی اشکال سمجھنا چاہئے.

علاوہ ازیں امام موصوف وجود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے. وہ لاشریک و بے ھمتا اور یکتاۓ زمانہ ہے. وہ ھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ باقی رہیگا. ازل سے ابد اس ہستی کا وجود یقینی ہے. یہ قائم بالذات اور مکتفی بالذات ہے. یہ وجود بذات خود نہ جوہر ہے اور نہ عرض. وہ کسی وجود میں نہیں سماتا اور نہ کسی چیز سے مشابہ ہے. اس کی شکل و شبیه کوئی نہیں. اس کی ذات بے چون و چرا ہے. ہمارے توھمات و تخلیلات میں جو کچھہ آتا ہے یا آ سکتا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے کیونکہ یہ تو خود تخیلات کا بھی ضائع ہے. خوردی و بزرگی اور کمی و بیشی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ خود یہ صفات بھی صور جسمیہ سے متعلق ہیں جن سے اس کا وجود منزہ ہے. وہ نہ کسی جگہ پر ہے اور نہ ہی اس لئے کوئی جگہ متعین ہے.

اس دنیا میں جو کچھہ ہے وہ عرش کے ماتحت ہے اور عرش اعلیٰ اس کی مرضی اور ارادے سے مسخر ہے. وہ عرش سے کہیں اعلیٰ تر ہے. ایسے نہیں جیسے کوئی جسم کسی جسم پررکھہ دیا جاۓ کیونکہ وہ کوئی جسم نہیں اور نہ ہی عرش اس کو اٹھاۓ ہوئے ہے، بلکہ عرش صرف اس کے حکم کے مطابق ایک جگہ قائم ہے. اس کی ذات کی صفت آج بھی وہی ہے جو عرش کو بنانے سے پہلےتھی اور آئندہ بھی ابدالاباد تک ایسی ہی رہےگی. گردش و انقلابات عالم کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.

اگر گردش و انقلاب میں نقصان کی صفت ہوگی تو وہ خدائی کے قابل نہ ہوتا اور اگر انقلابات زمانہ ترقی و صفات حسنہ کے باعث ہوں گے تو اس کی مثال ایسی ہو جاۓ گی جیسے کوئی چیز اول نقص تھی بعد ازیں کامل ہوگئی. یہ صفت بھی مخلوق کے لئے ہوتی ہے خالق کے لئے نہیں.-١

امام غزالی خالق کے علم کو مخلوق کے علم سے مماثل سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرتے ہیں. مثلا انسان مادیات کا علم حواس کے واسطے سے اور مجردات کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اور ان ہر دو صورتوں میں معلومات اس کے علم کی علت ہوتی ہیں. گویا جب انسان کا علم خود معلومات کا تابع اور معلول ہے تو معلومات کے تغیر و تعدد سے انسان کے علم میں بھی تغیرو تعدد پیدا ہو جاتا ہے. لیکن اس کے برعکس فلاسفہ کے نزدیک خدا کا علم خود علت ہے. معلومات کا معلول نہیں اس لئے اس کے علم کا قیاس انسانی علم پر نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو موجودات کا جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کلیت و جزئیت کے ساتھہ وہ علم متصف ہوتا ہے جو عقل انفعالی کے ساتھہ تعلق رکھتا ہو اور خدا فعل محض ہے گویا عقل کو صرف موجودات کا علم ہوتا ہے اور معدومات کا علم نہیں ہوتا. امام غزالی کے نزدیک خدا کا صانع عالم ہونا اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس سے اس کا صدور ارادہ و اختیار سے ہو.

تخلیق کائنات پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی طبیعیات کی قدرو منزلت کو بھی پورے طور پر محسوس کرتے ہیں. انکا کہنا ہے کہ جس طور پر ایک طبیب جسم کے اعضاء رئیسہ اور اجزاۓ خادمہ پر غور کرتا ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے اس میں کسی پہلو کو اسلام و مذہب کے تقاضوں کو منافی نہیں سمجھتا اسی طرح طبیعیات میں بھی مختلف اشیا کی ترکیب و امتزاج سے بحث کرنا قطعی مذہب کی روح سے متصادم نہیں. طبیعیات میں کار فرما شے خود طبیعیت نہیں بلکہ خاطر طبیعیت ہے کیونکہ اس عالم میں ایک طرح کی فعالیت ہے اس کی کوئی توجیہہ علل و معلول کے اس بے جان گورکھہ دھندے سے نہیں ہو پاتی. وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانہ حیات اور کائنات نظم و ترتیب اور ایک طرح کے ارتقا کا متقاضی ہے. وہ کہتے ہیں کہ طبیعیت میں زندگی و عمل کی جستجو بے کار ہے. اس کا مبدا تو بھر حال حی و قیوم خدا کی ذات ہی کو قرار دینا ہوگا..

قانون علت و معلول کے متعلق غزالی کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی ذہن و عادات کے تصور کی کرشمه زنی ہے ورنہ خارج میں اس طرح کے کسی رشتہ و تعلق کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں. کیونکہ جو کچھہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آگ جلتی ہے تو اس میں احتراق یا جلانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے. جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو روشنی سارے عالم میں پھیل جاتی ہے یا جب بجلی چمکتی ہے تو ایک آواز ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکرا جاتی ہے. اس کے معنی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں دو چیزیں ھمیشہ ایک خاص ترتیب کے ساتھہ ہی آتی ہیں. ایک آگ اور ایک قوت آواز، ایک آفتاب اور ایک روشنی، یا ایک بجلی کی چمک اور ایک آواز رعد کا احساس اور ان دونوں مظاھر میں تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت ہے؟ اس کا کوئی احساس ہمیں نہیں ہو پاتا اور منطقی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ ان کو علت و معلول قرار دینا محض ایک نوع کے استقرا کا نتیجہ ہے جو ذہن و عادت سے متعلق ہے تجروبہ و مشاہدے سے بہر حال اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ  تجروبہ اور مشاہدے کی گرفت میں تو محض دو مختلف قسم کے واقعات ہی آ پاتے ہیں جو ہر چند کہ باہم متعلق نظر آتے ہیں تا ہم دقت نظر اور غور سے دیکھئے تو سوا اس کے کہ ہم نے ان ہردو واقعات کو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں ایک خاص ترتیب کے ساتھہ لگا ہواپایا یا صادر ہوتے دیکھا ہے اور کسی شے کا مشاھدہ نہیں کیا. چناچہ معلوم یہ ہوا کہ یہ صورت محض ذہن وعادت کی شعبدہ گری ہے کہ اس نے ایسے دو واقعات میں علت و معلول کا ایک رشتہ فرض کر لیاہے جو ہمیشہ توالی و تعاقب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آۓ اور یہ سمجھہ لیا کہ پہلے ظہور میں آنے والی شے علت اور بعد میں ظہور کرنے والی شے معلول ہے جو اس ماقبل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.

زمان و مکان کے تصورات کی بحث میں قدیم فلاسفہ مختلف نظریات پیش کرتے آئے ہیں. یہ پرانے تصورات کچھہ اس طرح کے تھے کہ علاوہ ان جزیات و افراد کے جو پاۓ جاتے ہیں یہ بھی حقیقی وجود کا وصف رکھتے ہیں اور تمام جزیات و افراد کا ان سے تعلق ظرف و مظروف کا ہے. مکان کے بارے میں یہ فلاسفہ کہتے تھے کہ یہ ظرف باوجود اپنی وسعتوں کے بہر حال محدود ہیں کیونکہ کائنات خود محدود ہے اور زمانہ ایک ایسا وسیع تر ظرف اور پیمانہ ہے جو بے کراں و بے انتہاء ہے یعنی یہ غیر محدود اور لا منتاہی ہے.  لیکن غزالی زمان و مکاں کو جسم سے جدا کوئی مستقل بالذات ظرف قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے خیال میں دونوں کا تعلق جسم ہی کے امتداد یا حرکت سے ہے یعنی کسی ایک ہی چیز کے استداد کو مکان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ چیز جب متحرک ہوتی ہے تو اس سے زمانہ کا تصور اپنے مخصوص پیمانوں میں ازخود ذہن انسانی میں ابھرتا ہے. گویا یہ الفاظ دیگر یہ امتداد و حرکت جسم ہی کے ابعاد میں سے ہیں. ان سے جدا اور الگ ان کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس طور پر غزالی کو کانٹ کا پیشرو کہا جا سکتا ہے.

غزالی الله کی صفات سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ذات پاک زمانی ہے اور زمانہ بھی وہ کہ جو حرکت مکان سے وجود میں آتا ہے بلکہ وہ خود خالق ہونے کی وجہ سے وقت و زمان کے حدود و اطراف سے ماورا اور مستغنی ہے. بلکل اسی طور پر مکان کے متعلقات کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جریات و افراد سی علیحدہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں. گویا غزالی کے نزدیک جہات و اطراف کا تصور انسان کی ھیت تر کیبی سے وابستہ ہے. لہٰذا اگر کوئی حیوان اس قسم کی ھیت ترکیبی سے متصف نہ ہو تو اس کی جہات انسانی جہات سے مختلف ہونگی. مثلآ چیونٹی یا چھپکلی کی مثال ہمارے سامنے ہے. جس طرح یہ زمین پر چلتی ہے اسی آسانی سے یہ چھت کی نچلی طرف بھی چلتی ہے اور بلاشبہ جو ہمارا فوق ہوتا ہے وہ اس چھپکلی کا تحت بن جاتا ہے بلکہ ان ہر دوصورتوں میں ایک طرح سے نسبت تضاد پائی جاتی ہے گویا الله تعالیٰ کا تعلق جہت علوی سے ہونا کوئی بہت خوبی کی بات نہیں کیونکہ یہ علو خود اضافی اور اعتباری صورت حال ہے حقیقی نہیں.

حضرت امام غزالی بطلیموسی نظام ھیت کے قائل نظر آتے ہیں. تاہم ان کا کہنا ہے کہ اجرام سماویہ کا تعلق ادنیٰ ترین سطح یعنی عالم حواس سے ہے. کل فطرت کے پس پردہ خدا ہے جو سطح حقیقت پر ہے. عقل کی رسائی بلند ترین سطح تک نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال کو ادراک حسی کی شہادت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے. حقیقت کی سطح تک رسائی کے لئے انسان کا روحانی صلاحیت میں بلند ہونا لازم ہے جس کے وسیلے سے غیر مرئی اشیا مستقبل کے اسرار اور ایسے دوسرے تعقلات کا ادراک ہوتا ہے جو اسی طرح سے عقل کی رسائی سے خارج ہوتے ہیں، جس طرح عقل کے تعقلات محض امتیاز اور اس کی رسائی سے بھر ہوتے ہیں١- جس کا امتیاز حواس کے ذریعہ سے مدرک ہوتا ہے. وحی و الہام کے معنی انبیاء و اولیا پر حقائق کے منکشف ہونے کے ہیں اور ان حقائق کا علم صرف ایک ایسے ہی الہاسی شخصی تجروبہ سے ہو سکتا ہے جس سے روح حقیقت کی سطح تک بلند ہو جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ قرآن مجید کے تمام حقائق الہاسی ہیں، بلکہ خیر و شر کے تمام تصورات بھی الہاسی ہیں اور ان تک صرف عقل سے پہنچنا ممکن نہ تھا اور بلاشبہ یہ وہ نکتہ ہے جس سے معتزلہ کے اس دعوے کی تردید مقصود ہے کہ اخلاقی امتیازات کا عقل کے واسطے سے ادراک ہو سکتا ہے اور فلاسفہ و اطبا اور ھیت دانوں پر بھی حقائق اسی کشف کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں. لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ امام غزالی ابن رشد کے خلاف اسی فوق العقلی وجدان پر زور دیتے ہیں جو کہ حالت وجد میں حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے روح عالم ظلی سے بلند ہو کر عالم حقیقت تک پہنچ جاتی ہے. یہ رجحان خالصتا تصوف کی پیداوار تھا اور اس طرح سے غزالی اہل سنت کے یہاں عنصر تصوف کو داخل کرتے ہیں اور ساتھہ ہی صوفیت کو حکمی شکل میں منتقل کرتے ہیں. ان کا یہ شاندار کام

چار عنوانات کے تحت آتا ہے.

١- انہوں نے اہل سنت کے یہاں تصوف کو داخل کیا.

٢- انہوں نے فلسفہ کے استعمال کو مقبول عام بنایا.

٣- انہوں نے فلسفہ کو الہیات کے تابع بنا دیا.

٤- انہوں نے خدا کو ملّت اسلامیہ میں ایک زمانہ میں بحال کیا جب تعلیم یافتہ طبقہ میں خوف کا عنصر کم ہونے لگا تھا.

 

چناچہ امام غزالی تک آ کر اسلامی الٰہیات کی ترقی درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے. غزالی نے جی تین مسائل کو بلخصوص موجب تکفیر جانا ہے وہ یہ ہیں :-

١- یوم حشر میں اجسام اٹھاۓ نہیں جائیں گے.

٢- الله کا علم صرف کلیات کا ہی احاطہ کئے ہوئے ہے جزیات کا نہیں.

٣- یہ کارخانہ’ عالم ازل تا ابد یونہی قائم و دائم رہے گا.

اقتباس از ے قاضی قیصر السلام، فلسفے کے بنیادی مسائل

Share

المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری

اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔  یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے  حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ

فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا

اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی  کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں

268785_4472773623475_1426899029_n

اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

21216_10151463979022585_412146928_n

سنجیدہ شعر میں تحریف کر کر اسے مزاح کا رنگ دینا ایک قابل تحسین ہنر ہے۔ لیکن موجودہ تضمین سے شگفتگی کی صنف بنانے کا معیار و مزاج ، سوشل میڈیا کی ہی طرح کا ‘سطحی’ ہے۔  وہ دن ہوا ہوے جب عنایت علی خان یا پاپولر میرٹھی کس خوبی سے کہا کرتے تھے
حسن والوں نے کیا ہے بہت جم کے پتھراؤ
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یا پھر علّامہ کا یہ سنجیدہ شعر
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تھوڑی سی تحریف سے کیا خوب ہوا۔
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
اور امیر الاسلام ہاشمی
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
نے کس قدر ‘نازک’ موضوع پر خامہ فرسائ کی
نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
 اب تو یہ حال ہے کہ

اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں‌سے بھی نکل آئے فراز

علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

487288_10151081453451505_527155786_n

یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔

398988_10150889305091505_2061535367_n

محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان  مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔   تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر  نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔

فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور

یا پھر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز

 اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے

وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے

دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا

مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور

اور

اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call

اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں

 

اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں

ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا

اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا  پڑھتا ہے۔

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

یا پھر

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اب ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم پر تو حضرت علامہ کی لحد میں لوٹ پوٹ پر نہایت افسوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ فراز ایس ایم ایس نے تو اس کیفیت  پر بھی ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو

ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے 
ایس ایم ایس اشعار کا ذخیرہ تو لا امتناہی ہے مگر کچھ خیال خاطر احباب کی خاطر اس کو مختصر رکھتے ہیں اور مندرجہ زیل اشعار پر تمت بالخیر کہتے ہیں
اگر اقبال پر ہوتی رہیں انــگـلش میں تـقـریریں
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حوالہ جات

ہیش ٹیگ شاعری

جی ڈھونڈتا ہے

فراز، ایس ایم ایس دیوان

Share

انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کا تعارف

جان لیوا ہے شام بہت
پر دفتر میں ہے کام بہت
 شہد بھرے ان ہونٹوں سے
کھانے کو دشنام بہت
حسن کے چرچے گلی گلی
اپنے سر الزام بہت

یاور امان  کی شاعری عہد جدید کی تلخیوں کی ایسی منظر کشی ہے جس میں کلاسیکییت اور تکنیک سے اجتناب کے بجاے اسکا بھرپور استعمال نظر آتا ہے۔انکی شاعری سے متعارف کرانےکا سہرا ہمارے ایک دوست کے سر جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیزدوست براردرم شمائل نے ایک نشست میں تذکرہ کیا کہ انکے والد محترم بھی شاعری کے دلدادہ ہیں، خود بھی لکھتے ہیں اور کئی زبانوں پر ۔مہارت رکھتے ہیں، نیز انکی ایک کتاب حال ہی میں چھپ کر آئ ہے۔ اس بات سے ہمیں بڑا اشتیاق ہوا اور ان سے گذارش کی کہ اگلی بار جب پاکستان کا چکر لگے تو کتاب ضرور لیتے آئیے گا۔

cover-front-yawar-aman

پھر جب ہمیں آٹوگراف کاپی ملی تو ظاہر سی بات ہے کہ پھولے نا سماے اور فورا انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کو پڑھنا شروع کیا۔ شاعرکے کلام میں اسکی زندگی کے اتار چڑھاو ، معاشرتی تبدیلیوں اور گردونواح کی جھلک ملنا کوئ اچھنبے والی بات نہیں لیکن جن مشکلات سے یاور امان صاحب گذرے ہیں، پرورش لوح وقلم کے نام پر انکو رقم کرنا درحقیقت ایک بڑی کاوش ہے۔

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

انکی تحریرمحض جالب کی احتجاجی شاعری نہیں اور نا ہی میر درد کا نوحہ ہے، اس میں فیض کی بغاوت اور  ندرت خیال ہے مگر بے محابہ لفاظی نہیں۔ یہ کتاب اظہارجذبات و احساسات و مشاہدات و طنز و تلخی سے عبارت  ایک ایسے مصور کا کینوس ہے جو  رنگوں کو  اسطرح بکھیر دیتا  ہے کہ پوری تصویر کے ساتھ ہر رنگ نمایاں نظر آتا ہے، چاہے وہ بارود کے دھوئیں کا سیاہ و سپید رنگ ہو، سمندر کے پانی کا نیلگوں رنگ ہو، سقوط بنگال  کے رستے زخموں کا آتشیں رنگ یا جلتے کراچی کا سرخ  رنگ، یاور امان کی اس کاوش میں آپکو وہ تمام رنگ یکجا نظر آئیں گے۔

autograph-yawar-aman

یاور امان صاحب کی شاعری میں نقل مکانی کے درد کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے۔  کچھ قارئین کو شائد  یاور امان کی تحریر روایتی انداز سے مختلف   لگے کیونکہ انہوں نے  نہایت مہارت  سے الفاظ اور محاورات کے ساتھ جدید تجربات کئے ہیں۔

شاعر کے تعارف میں جناب ڈاکٹر محمّد رضا کاظمی لکھتے ہیں

یاور امان جیسے کلاسیکی رچاؤ اور بصیرت رکھنے والے شاعر کا وجود ہمیں ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے. کسی کہ کشتہ نہ شد از قبلہ مانیست کے مصداق میں نے یاور کی شعوری تربیت گاہ پر نگاہ کی تو مجھے کلکتہ کی وہ گلیاں نظر آئیں جن سے ہم اور یاور ایک دوسرے سے آشنا ہوئے بغیر آشنا تھے. اس پس منظر میں میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یاور کا شعور حیرت اور شناخت جیسے مسائل کے درمیان کیوں پروان چڑھا. یاور کے پاس جو آئینہ ہے اس کی آرائش سے کوئی نسبت نہیں اور شاید اس کا حسن واقعی صورت سراب رہا ہو. اتنا تو طے ہے کہ غم جاناں کی طرف سے اسے اطمینان ہے اور عشق اس کے لیے مسئلہ کا درجہ نہیں رکھتا. یاور کے دل سے جو صدا ابھرتی ہے وہ احتجاج کی صدا ہے.

انکی ایک غزل ملاحظہ ہو کہ۔

ہاتھوں میں سیم و زر کی حرارت نہیں ہوئی
مجھہ سے یزید وقت کی بیعت نہیں ہوئی

اس کا جب انتخاب تھا میرے لیے کفن
مجھہ سے بھی پاسداری خلعت نہیں ہوئی

سچ بولتے وہ کیسے جنھیں جاں عزیز تھی
یہ تاب، یہ مجال ، یہ جرات نہیں ہوئی

کچھہ لوگ بچ گۓ جو ابھی تک ہیں سد راہ
پوری مراد حسب ضرورت نہیں ہوئی

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

احمد الیاس یاور امان کی شاعری کے بارے میں اسطرح رطب اللسان ہیں۔

امان کی ابتدائی شاعری کا زمانہ وہ تھا جب ایک نۓ انقلاب زدہ ملک میں اردو شاعر اور ادیب، مع اور قاری سب کے سب بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے. پرانے اقدار ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے تھے اور لوگ بڑی حد تک نظریۂ  کی اذیت کا شکار ہو رہے تھے. جس معاشرے میں یہ صورت حال ہو وہاں معاشرے کی شیرازہ بندی باقی نہیں رہتی. امان نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور اس کا اظہار بھی کیا.

امان نے اپنے ماحول اور وقت کے سیاسی شعور، سماجی انتشار اور معاشرتی مسائل کو غزلوں کے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے. وہ اس میں کہاں تک کامیاب رہے یہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے. لیکن اس تجربے میں انہوں نے زندگی کے عصری تقاضوں کو محسوس کیا ہے اور ان محسوسات کو ایک اچھے فنکار کی طرح ادب کے عصری تقاضوں کے ساتھہ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے.

ہاور امان صاحب کی یہ غزل یقینا قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے سادگی کی زمین میں ایک خوبصورت مضمون باندھا ہے۔

جب کبھی آسمان کھلتا ہے
دھند کے درمیان کھلتا ہے 

یوں در دل تو کھولیے صاحب

جیسے خالی مکان کھلتا ہے 

اس طرح مجھہ سے کیوں کھلیں گے آپ

جس طرح بادبان کھلتا ہے 

میرے مہمان بن کر تو دیکھیں

کس طرح میزبان کھلتا ہے 

کوئی کھڑکی کبھی جو کھلتی ہے

گویا پورا مکان کھلتا ہے 

بے زبانی بھی سوچیے اس کی

جب کوئی بے زبان کھلتا ہے

 در حقیقت یقیں کی سرحد پر

سارا وہم و گمان کھلتا ہے

ایک اور تہذیب سانس لیتی ہے

جب کوئی پان دان کھلتا ہے

حسن کی بارگاہ میں اکثر

دست بستہ امان کھلتا ہے

یاور امان اور ان کی شاعری کے عنوان سے ایک مضمون میں علی حیدر ملک انکی سوانح لکھتے ہیں جس سے شاعر کی زندگی کے کئی پہلووں پر روشنی پڑتی ہے اور اشعار کے سیاق و سباق و کیفیت  کا اندازہ ہوتا ہے۔ 

بچہ بچہ ہے مرے شہر کا رونے والا

سوچتا ہے کسے بہلاۓ کھلونے والا

دن جو بدلے تو چلا آیا پذیرائی کو

ہار پھولوں کا لیے خار چبھونے والا

جانے کس جرم کی پاداش میں ان آنکھوں کو

رت جگے دے گیا آرام سے سونے والا

ایسا ہوتا ہے گماں یہ مرا اپنا تو نہیں

قتل گاہوں کی زمیں خون سے دھونے والا

ڈھونڈھتے ہو کسے ماضی کے دھندلکے میں امان

وقت گزرا ہوا پاتا نہیں کھونے والا

علی حیدر ملک کے تعارف کے کچھ حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں نقل کررہا ہوں۔

یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے. مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر. تا ہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہر حال اس وقت بھی قائم تھا. اس وقت وہ امان ہر گانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی و بنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے. علاوہ ازیں بہ حیثیت صحافی اخبارات خصوصا ہفت روزہ “قوم” کھلنا اور روز نامہ “حریت” کراچی کے لیے خبریں، رپورٹیں اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے.

بنغلہ دیش بننے کے بعد کسی طرح اپنی جان اور عزت بچا کر وہ کھلنا سے ڈھاکہ منتقل ہوگۓ. جان اور عزت تو محفوظ رہی لیکن اپنے روزگار اور پرانے ساتھیوں سے محروم ہو گۓ. غیر بنگالیوں کے لیے یہ بڑا پیغمبری وقت تھا. اردو بولنا ایک جرم تھا. رفتہ رفتہ حالات کسی قدر بہتر ہوئے تو اردو بولنے والوں کی توجہ اپنی زبان اور ادب کی طرف شروع ہوئی. مگر اردو کے اخبارات و رسائل تو تھے نہیں لہٰذا ایسے میں شعری محفلیں کام آئیں. شاعروں اور بازوق لوگوں کے گھروں پر چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں منعقد ہونے لگیں. ان شعری نشقوں میں زیادہ تر طرحی غزلیں پڑھی جاتی تھیں. یاور امان ان نشستوں میں بہ حیثیت سامع شرکت کرتے تھے. پھر یہ سوچ کر کہ نثر نگاروں کے لیے فی الحال یہاں کوئی گنجائش نہیں، انہوں ننے شاعری شروع کردی اور بہ حیثیت شاعر شعری محفلوں میں شریک ہونے لگے. ابتداء میں حافظ دہلوی اور ماہر فریدی سے مشورۂ سخن کیا. یہ دونوں بزرگ جید صاحب فن اور استاد سمجھے جاتے تھے لیکن یاور امان ان سے مطمئن نہ ہوئے کیوں کہ وہ رموز شاعری سے آگاہ کرنے کے بجاۓ مصرعے یا شعر تبدیل کر دینے اور اکثر اوقات سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کے طریقہ کار پر کار بند تھے. یاور امان کو یہ طریقہ کار پسند نہیں تھا اسی لیے مشورۂ سخن کا سلسلہ جلد ہی منقطع ہوگیا. انہوں نے مطالعے کو اپنا رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں اور احباب کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے نمایاں تھے. وہ اب بھی اسی طریقہ کار پرعمل پیرا ہیں. ہر نئی تخلیق پہلے وہ اپنے قریبی احباب کو سناتے اور ان سے ان کی راۓ طلب کرتے ہیں اور ان کی راۓ کی روشنی میں اپنی تخلیق پر دوبارہ غور کرتے ہیں. اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے قریبی دوست شاعر نہیں، نثر نگار ہیں مگر اس کا کیا کیا جاۓ کہ وہ شاعروں سے زیادہ ان نثرنگاروں کی راۓ کو ہی زیادہ معتبر گردانتے ہیں.

اردو شاعری  میں ایک طرف جہاں تعلی کی روایت بہت مضبوط ہے وہاں دوسری طرف تقلید کو بھی قابل فخر سمجھا گیا ہے . اکثر شعراء کا تعارف یہ کہہ کر کرایا جاتا ہے کہ فلاں شاعر کے رنگ میں شعر کہتے ہیں یایہ کہ فلاں شاعر کے دبستان سے وابستہ ہیں. یاور امان اس روش کو پسند نہیں کرتے. وہ کہتے ہیں :

 

امان چھاپ کسی کی نہ خود پہ لگنے دے

جب آرزو ہے کہ فن تیرا کامیاب رہے

 

وہ اپنے قلم کو کسی بھی شاعر کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اور یہی نہیں وہ اپنی فکر کی تکرار بھی نہیں چاہتے:

امان آزاد رکھہ اپنے قلم کو

اور اپنے فکر کی تکرار مت کر

انہوں نے اردو شاعری کے اساتذہ اپنے پیسش روؤں اور ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے کسی قدر استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی. اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات اور سیاست کی بازی گری سے آنکھیں چرانا عہد حاضر کے کسی شاعر کے لیے ممکن نہیں . یاور امان نے بھی ایسا نہیں کیا. انہوں نے عوام کی زبوں حالی کو اس طرح پیش کیا ہے:

اے قیصر وجمشید کے سجادہ نشیں دیکھہ

میت ابھی جمہور کی بے گورو و کفن ہے

ہمارے سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کا رویہ کیا ہے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :

منصب راہبری، اندھوں میں جب کانے کو

ہاتھہ آۓ تو سمجھہ لیتا ہے گھر کی میراث

 

یاور امان نے دو ہجرتیں کیں اس کا صلہ کیا ملا؟ ذرا شعر دیکھیے :-

 

دو ہجرتوں کے بعد بھی ثابت نہ کر سکے

حب زمیں امان زمین وطن کے ساتھہ

 

غزل اشارے اور کناۓ کا فن ہے. اس میں عصری حالات اور تاریخی واقعات کو بھی استعارے کے پیکر میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یاورامان  نے بعض اوقات راست انداز سے کام لیا ہے مثلا وہ غزلیں جن کے مطلعے درج ذیل ہیں:

 

ان آنکھوں میں محبّت دیکھتے ہیں

چلو دل کی شہادت دیکھتے ہیں

اور

 

یقین کی حد سے آگے منزل وہم و گماں کیوں ہو

میاں دیدہ و دل حاصل سود و زیاں کیوں ہے

 

اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے یاور امان نے ناموں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا مثلآ :

ہم نے سیکھا عالی  جی سے

اپنے نام کی  مالا جپتا

اور

کراچی کو نصیر الله بابر

عجب کیا رکھہ نہ دے بنگال کر کے

یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے. آخر الذ کر شعر جس غزل کا ہے وہ اس زمانے میں کہی گئ تھی جب پاکستان کے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر الله بابر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھہ کراچی شہر میں ٹوٹ پڑے تھے. ہزاروں نوجوانوں کو ماوراۓ قانون، گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور زخمی کردیاگیا . بے شمار معذور اور لاپتا کر دیے گۓ. پورا شہر، شہر خموشاں بنا ہوا تھا. اگر کوئی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ گولی کی آواز ہوتی تھی یا نالہ وشیون کی. اس زمانے میں ظلم و جور کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یاور امان نے ان جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے پوری قوت سے آواز بلند کی اور مشاعروں میں اپنے اشعاربے خوفی کے ساتھہ پڑھتے رہے. اورنگی ٹاؤن کے ایک بڑے مشاعرے میں، جس میں ضلعی انتظامیہ کے کئی زمہ دار افسر بھی موجود تھے، یاور امان نے یہ غزل پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا، داد دینے والوں میں سرکاری افسران بھی شامل تھے.

اس کے کچھہ عرصے بعد یاور امان کسی دوست یا عزیز سے ملنے اورنگی گۓ. واپسی کے لئے وہ بس اسٹاپ پر کھڑے تھے کہ پولیس موبائل آئی اور انہیں اٹھا کر لے گئی. انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا. پولیس ان پر الزام عائد کر رہی تھی کہ وہ ہندوستانی ایجنٹ ہیں اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں. یاور امان اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہے لیکن حسب معمول پولیس اہلکاروں نے ایک نہ سنی. کچھ دیر بعد تھانے کے ایس ایچ او علاقے کے راؤنڈ سے واپس آۓ  تو انہوں نے یاور امان کو حوالات میں دیکھہ کر حیرت کے ساتھہ اپنے عملے سے پوچھا کہ انہیں یہاں کیوں بند کر رکھا ہے ؟ ایک اہلکار نے اپنا موقف بیان کیا تو ایس ایچ او نے جھنجھوڑ

کر کہا ارے او بیوقوفوں یہ شاعر ہیں اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اورنگی کے مشاعرے میں وہ غزل پڑھی تھی جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا. پھر اس نے نصیر الله بابر والے شعر کے علاوہ کئی شعر سنا ڈالے. یاور امان کو حوالات سے رہا کرنے کے بعد ایس ایچ او نے انہیں چاۓ پلائی اور معذرت کی. زمانہ گردش کرتا رہتا ہے سو زمانے کی نئی گردش نے اس جماعت کو جو معتوب تھی، اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا. اب ان لوگوں کی بن آئ جو پرشوب دنوں میں منقاد زیر پر کیے بیٹھے تھے. خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جانے والے ادیب اور شاعر انعامات وصول کرنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گۓ مگر یاور امان اور ان جیسے دوسرے اہل قلم جنہوں نے عین ظلم و جور کے زمانے میں احتجاجی فن پارے تخلیق کیے تھے اس قطار سے دور وہیں کھڑے رہے جہاں کہ وہ پہلے تھے. خیر یہ دوسرا قصّہ ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک اور المیے کو ظاہر کرتا ہے.

بات ہو رہی تھی یاور امان کی شاعری کی اور میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یاور امان نے کسی شاعر کی تقلید یا پیروی نہیں کی. یہاں تک کہ پرویز شاہدی اور مظہر امام جیسے ممتاز شعراء کی بھی نہیں جو کہ ان کے باقاعدہ استاد تھے. ویسے وہ بعض شاعروں کو پسند ضرور کرتے تھے جنمیں مرزا غالب، شادعظیم آبادی، جمیل مظہری، جون ایلیا اور ظفر اقبال خاص طور پر قابل ذکر ہیں. ان کی زمینوں میں انہوں نےغزلیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے وہ جدید غزل کے مجتہد ظفر اقبال سے زیادہ قریب ہیں. یوں تو انہوں نے کلاسیکی روایت میں بھی غزلیں کہی ہیں اور اچھے شعر تخلیق کیے ہیں لیکن جدید رنگ کی غزلوں میں ان کے یہاں زیادہ طرح داری اور پختگی کا احساس ہوتا ہے. ان کی جدید طرز کی غزلوں میں طنزکا عنصر بنت نمایاں نظر آتا ہے حالانکہ طنز ایک ایسی خصوصیت ہے جو غزل کے بنیادی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی. تاہم غالب، یگانہ اور دور حاضر میں ظفر اقبال، مظفرحنفی اور کچھہ دیگر شعراء نے اس کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا ہے. یاور امان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں.

یاور امان کی شاعری میں صرف طنز ہی نہیں اکثر تلخی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کھاتے پیتے نجیب الطرفین سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن لڑکپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھہ جانے کے باعث انہیں سخت ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا. تعلیم اور روزگار کے حصول کے لئے انہیں کم عمری میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کلکتہ اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا. ان بڑے شہروں میں انہوں نے مادی کامیابی کے لیے چوہا دوڑ، انسانی اقدار کی پامالی اور سرماۓ کی چیرہ دستی کا تماشا بہت قریب سے دیکھا جس سے ان کے بہت سے آدرش شکست و ریخت سے دو چار ہوئے.بڑے تجارتی شہروں کے حالات نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کی ذات کے اندر تلخی پرورش پانے لگی. اس تلخی کا اظہار جابہ جا ان کی شاعری میں ہوا ہے.

یاور امان نے شاعری کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے. انہوں نے رباعی جیسی روایتی اور مشکل صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور نظم کی مختلف ہستیوں کو بھی آزمایا ہے. جہاں تک نئی صنف سخن “تروینی” کا تعلق ہے، وہ اس کے مخترع گلزار کے بعد اولین دو معماروں میں سے ایک ہیں. دوسری اولین معمار فوقیہ مشتاق ہیں. لیکن غزلوں کی تعداد بھر حال ان کے ہاں سب سے زیادہ ہے اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنی غزلوں کا انتخاب شائع کرنا مناسب سمجھا. دوسری اصناف پر مشتمل مجموعے بعد میں شائع ہوں گے. فی الحال آپ ان غزلوں کے مختلف النوع ذائقے کا ۔لطف اٹھائیے.

علی حیدر ملک کے مندرجہ بالا تعارف سے امید ہے کہ ہمارے دور کے اس شاعر کے حالات زندگی اور انکے کلام کی نوعیت سے اچھی واقفیت ہوئ ہوگی۔ مندرجہ زیل غزل یاور امان صاحب کے مجموعے سے میری پسندیدہ غزل ٹھری ہے۔

جان لیوا ہے شام بہت

پر دفتر میں ہے کام بہت

شہد بھرے ان ہونٹوں سے

کھانے کو دشنام بہت

حسن کے چرچے گلی گلی

اپنے سر الزام بہت

ننگی گھاس ف ننگے پاؤں

چلنے میں آرام بہت

گھر سے گھر تک رہوں میں

پھیلے ہیں اوہام بہت

گھر، گلیوں، چوباروں میں

رشتوں کے اہرام بہت

مرنے کا بس ایک ہی دن

جینے کے ایام بہت

سچ کی قیمت کم ہے امان

جھوٹ کہو تو دام بہت

اور مندرجہ زیل اشعار میں آپکو جدید ٹکسالی اردو  کا مزا آے گا۔


عدو یوں تو مرا تگڑا بہت ہے

مگر میں نے اسے رگڑا بہت ہے

میں تجھہ سے عشق تو کرتا ہوں جاناں

مگر اس راہ میں لفڑا بہت ہے

تمھاری تیز رفتاری سلامت

ہمارے واسطے چھکڑا بہت ہے

تقریبا تین سوصفحات کی  یہ کتاب  میڈیا گرافکس کراچی نے شائع کی ہے اور اسکی قیمت تین سو رپے ہے۔

cover-back-yawar-aman

 

Share

محمد عبدالغنی، ایک عہد ساز شخصیت

میرے بزرگ محمد عبدالغنی کو ہم سے جدا ہوے آج چھ برس کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ضمن میں ایک یادگاری مضمون قارئین کی نظر ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرماے، آمین۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

اخلاق و شرافت ، علم دوستی، شائستگی و تہذیب ، بلند حوصلگی ، وسعت قلب و فکر ، وضعداری و پاسداری اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ ان صفات میں سے صرف کچھ ہی کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے محمد عبدالغنی کی نابغہ روزگار شخصیت متصف تھی۔اسم با مسمی عبدالغنی کی تمام زندگی ضرورت مندوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد سے عبارت تھی جس روایت کو انکی اہلیہ و اولاد نے زندہ رکھتے ہوئے عم محترم کے لئے صدقہ جاریہ کا التزام رکھا۔ آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں تو چنداں ممکن نا ہوگا لیکن میں‌ کچھ چیدہ چیدہ نکات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں‌ گا۔

9 جنوری 1924 کو برٹش انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کےشہر پربنی میں آپ کی پیدائش ہوئی جو حیدرآباد دکن سے تقریبا دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے حصول کے لئے آپ اورنگ آباد چلے گئے۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا جو کہ برطانوی راج میں غیر منقسم ہند کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی اور اسے انڈیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ دیا جاتا تھا۔ یہاں سے آپ نے 1941 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں علم کیمیا کے اندر پوری جامعہ میں پہلی اور علم طبعیات میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں آپ نے کیمیا، طبعیات، ریاضی اور انگریزی کے ساتھ بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمومی طور پر لوگوں کا تعلیم کی طرف رجحان نا تھا لیکن غنی صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلی تعلیم کو اپنی کلید کامیابی قرار دیا ۔اکیس سال کی عمر میں1945 میں اطلاقی کیمیا میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ نےمزید اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ عثمانیہ کو خیر آباد کہا اور محقق کے طور پر سرکاری اسکالرشپ پر برطانیہ روانہ ہوئے ۔ غیر ملکی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑا اعزاز تھا جسے محمد عبدالغنی نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا اور ہر سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔ آپ نے نارتھ اسٹیفورڈشائر تکنیکی کالج سے 1946-47 کے درمیان پروڈکشن مینیجمنٹ، پاٹری، مشین ڈراینگز، ورکشاپ ٹیکنالوجی، اطلاقی طبعیات جیسے گیارہ کلیات میں مینیجر کا کورس مکمل کیا جبکہ پاٹری اور سرامکس کے دیگر چھ کلیات میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ دو سال کے اندر ان تمام اسباق میں مہارت آپکی ذہانت، لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

برطانیہ سے واپسی پر آپ نے بھارت کے بجاے پاکستان کو اپنی سرزمیں کے طور پر چنا اور سندھ گورنمنٹ میں‌ ڈپٹی ڈیولپمنٹ آفسر کے طور پر فرایض انجام دئے۔ نوزائدہ مملکت خداداد کو اسوقت جن مسائل اور چیلینجز کا سامنا تھا، ان میں‌ محمد عبدالغنی کی شخصیت اور ذہانت رکنے والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی جو کہ اس نئے ملک کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس کار گراں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ آپ نے یہ ذمہ داری نہایت بخوبی نبھائی اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ 1955 سے 1960 کے عرصے میں‌آپ نے میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے مینیجر اور زیل پاک کے ایڈمنسٹریٹیو افسر کے فرائض انجام دئے۔ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پی آی ڈی سی کے جنرل مینیجر (سیمنٹ) کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے آپ 1961 سے 1971 کی دہائی میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری، جنرل ریفیکٹریز اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو بخوبی چلایا۔ اس ایک دہائی کے دوران ان فیکٹریز کی مکمل ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی جس میں‌ مارکٹنگ، پلاننگ، مینیجمنٹ، آرگنائزیشن، لیبر تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے نا صرف پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ مشرق وسطی میں پاکستانی سیمنٹ کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا سہرہ بھی غنی صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔آپ ایک ‘سیلف میڈ’ انسان تھے اور ‘ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا’ کی عملی تفسیر۔ اسی وجہ سے آپ نے ہمیشہ لوگوں‌ کو نامصائب حالات میں محنت کرنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی تلقین کی۔

1971 میں حکومت وقت کے سیمنٹ فیکٹریوں کے قومیاے جانے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں تاریخ نے ایک سنگین غلطی ثابت کیا،۔ اس عرصے میں آپ نے 1972 سے 1976 تک اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، جاویداں سیمنٹ فیکٹری کے مینیجنگ ڈایریکٹر کے فرایض انجام دیئے۔ جو لوگ پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کے لئے آپ کی دیرینہ خدمات سے آگاہ ہیں وہ آپ کو کئی حلقہ جات میں پاکستان کی اس صنعت کا قائد اور ‘باباے سیمنٹ’ کہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر ہماری احسان نا شناس قوم نے آپ کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کے بجائے اسے بھلا دیا۔

محمد عبدالغنی کے وسیع تجربے اور قابلیت سے دیگر ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بہاما سیمنٹ کمپنی اور گلف گروپ آف کمپنیز میں کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دئے اور ان اداروں کی مدد سے کئ ممالک بشمول فلپائن میں‌ سیمنٹ کی صنعت کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آپ نے روسکیم انٹرنیشنل ہیوسٹن میں بھی کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر کے طور پر کام کیا جس کے بعد بینکرز ایکیوٹی نے قرضہ جات کے تعین اور اندازہ کے لئے اپریزر کے طور پر آپ کی ماہرانہ خدمات حاصل کئیں۔

ہمہ از آدمیم ما، لیکن

او گرامی تر است کُو داناست

کسی بھی نئی صنعت کے قیام کے لئےتجربے، وسائل اور پرزہ جات کی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمن میں آپ نے بیرون ملک سفر کئے اور کئی کلیدہ معاہدوں کے تحت پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کو اسکی بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ۔ ان دوروں کے تحت آپ ڈنمارک، امریکہ، فرانس، مغربی جرمنی، یوکے، سویٹزرلینڈ، سویڈن، اٹلی، چیکوسلاواکیا، ایران، سعودی عرب، جاپان غرضیکہ مشرق وسطی اور بعید کے کئی ممالک سے معاہدے کئے نیز وہاں کے پلانٹس سے حاصل کئے تجربات کو پاکستانی سیمنٹ کی صنعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔

ان تمام پیشہ وارانہ قابلیتوں کے بعد بھی عبدالغنی صاحب تمام عمر ایک سادہ اور منکسر مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقربا کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ آپ نے کبھی ظاہری دکھاوے کو اپنا شعار نہ بنایا بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی ترجیحات صحیح طرح متعین کریں۔ان کی جدوجہد اور ترقی ہمیشہ سے میرے لئے ذاتی طور پر ایک مثال رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب میں آٹھ سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ ان کے پاس دکھانے لے گیا تو بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی۔ ان کی اہلیہ ناہید غنی نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سو رپے دیے جو میرے لیئے ہمیشہ ایک بیش بہا خزانے کی اہمیت رکھیں گے۔ اپنی اولاد کو بھی انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور ہمیشہ انسانی ہمدردی اور رواداری کی تلقین دی جو آج بھی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ سادہ و منکسر چچا جان اپنی تعریف کے قطعی قائل نا تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا یہ مضمون پڑھ لیں تو ضرور کہتے کہ میاں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم پر توجہ دو، یہ کہاں تم مدح سرائیوں میں لگے ہو۔

m a ghani adnan masood childhood

مجھ کو دہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپریل 2007 کے آخری ہفتوں کی بات ہے کہ خبر ملی کہ چچا جان صاحب فراش ہیں۔ شام کو اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے یو سی ایل اے میڈیکل سینٹر گیا تو ان کے گرد تمام گھر والے جمع تھے ۔ انہیں دوسروں کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ عیادت کرنے تو میں گیا تھا مگر الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگے کہ راستے میں کہیں ٹریفک تو زیادہ نہیں ملا اور سفر میں مشکل تو نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب میں نے اجازت لی اور کہا کہ انشااللہ کل ملاقات ہوگی تو میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ اگلی صبح شاہد بھائی کا فون آیا کہ پاپا کا انتقال ہو گیا ہے۔

اناللہ وانا علیہ راجعون

آپ کی تدفین میں‌ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دنیا بھر سے رشتے داروں اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا رہا۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لیکن سب سے اہم چیز جو انہوں نے اپنے میراث میں چھوڑی وہ متاع دنیا یا شہرت نہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان والوں میں علم دوستی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ آج انکا پوتا منصور غنی امریکہ کی جامعہ ییل کا طالبعلم ہے جو کئی امریکی صدور کی علمی و فکری درسگاہ رہی ہے۔ علم کی اہمیت کا یہ بیج بونے کا سہرا اس کے دادا ہی کے سر رہے گا .

آپ کی علمی و تکنیکی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ انکے ایک ماتحت اور میرے عزیز دوست کے والد بیان کرتے ہیں کہ “میں نے غنی صاحب جیسا ایماندار، ڈسپلنڈ اور نظم و ضبط کا پابند افسر اپنی تیس سالہ سروس میں آج تک نہیں دیکھا۔ ان کو جھوٹ، رشوت، سفارش سے سخت چڑ تھی اور قاعدے قانون کی پابندی انکی پیشہ وارانہ زندگی کا نہایت اہم جز”۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

photo

Share

عسکری الحادئیے

کیونکہ عسکری ملحدین یا دہریہ کہنے سے، باالفاظ شعیب سلیم، ٹیمپو نہیں بنتا۔

الحاد ایک مذہب ہے، اور اس کے عسکری پیروکار و معتتقدین انہی غیر اثبات شدہ حقیقتوں کا پرچار کرتے ہیں جن کے عدم ثبوت میں وہ دیگر متصور الہامی وغیر الہامی مذاہب کے تمسخر و استہزا پر مصر ہیں۔ کم از کم پیر مغاں کلیسا الحاد نے اس عدم ادراک کی لاج رکھی ورنہ علمی دیوالیہ تو اس انبوہ کا وطیرہ ٹھرا۔

اور جب مفتود شدہ اخلاقی جرات کی بات چل نکلی ہے تو جہاں حضرت انسان کی اطاعت طلب کرنے پر انہیں مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہے (واللہ عالم اس محاورے کا لغت زندیقیہ میں ترجمہ کیا ہوتا ہے)، وہیں حضورکا انسانی فلسفہ و نظریات مثلا جمہوریت و اشتراکیت و ملوکیت و فاشیستی واستبداد کی پبلک پالیسی امور میں دخل اندازیوں سے ایسا تجاہل غیر عارفانہ و صرف نظر کہ دامن پہ کوئ داغ نا ۔۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ

Share

عقلیت پرستی کا دور از حسن عسکری

عقلیت پرستی کا دور، انتخاب از مجموعہ محمد حسن عسکری

حسن عسکری

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علماء کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے. اس لفظ کے اصل معنی ہیں. “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے. ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کافظ استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں. چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے. جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی. مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں.

یہ تو جملہ معترضہ تھا. غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.

اس دور کے سب سے بڑے “امام” دوہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.

دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.

یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا.

یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی. ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں. انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی). دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے. یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے. (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے.)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یانہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”

غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے.

دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے. اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی. چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی. پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”

The heart has reasons of its own which the reason does not understand

یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”. علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے. اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی. پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے. اس سے مراد “جذبات” ہیں. اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے. ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے. بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے. (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے. جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے). ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں. دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے. آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے. بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.

نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں. انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں. یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا. ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے.نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتاہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.

انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.

اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگےہوگا .

اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے. اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے. اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے.چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں. عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں. ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا.

جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا.

١٨٥٧، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا. ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا.

مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. ١٨٣٦، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا. ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے. اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے. اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی.ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے. یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے. غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ..اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی. بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے.

مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا. مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے.

ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے. وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا..

مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………. انسان پرستی. بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…

Share

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share